عادل جہانگیری وفات: 4 جنوری

اردو کے معروف ناول نگار، شاعر،کہانی نویس اور مصور بشیر احمد عادل جہانگیری 14 اگست 1924 کو یوپی کے شہر کانپور میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی شہر لکھنو تھا، لیکن ان کے والد جہانگیر خان چونکہ ریلوے میں ملازمت کرتے تھے اور یوں ان کے مختلف شہروں میں تبادلے ہوتے رہتے تھے۔ بالاخر کانپور میں انہوں نے مستقل رہائش اختیار کرلی۔
عادل جہانگیری کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں، ان کے والد جہانگیر خان کا اس وقت انتقال ہوگیا، جب عادل سات آٹھ سال کے تھے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم کانپور ہی میں حاصل کی، لیکن معاشی مشکلات کی وجہ سے مزید تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور مختلف ملازمتیں کرکے گھر کی گاڑی چلانے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کام کرتے رہے اور اس کے ساتھ ہی مطالعہ، تصنیف و تالیف اور مصوری کی پریکٹس بھی کرتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی میں سکونت اختیار کرلی اور گریجویشن کراچی سے مکمل کی۔ بچوں کے لئے بہت سی کہانیاں لکھیں، خاص طور پر 1953میں بچوں کا ماہنامہ ٹارزن کراچی جاری کیا۔ وہ باتصویر جریدہ تھا اور بچوں میں بے حد مقبول ہوا۔ چونکہ عادل جہانگیری مصور بھی تھے، اس لئے باتصویر کہانیاں لکھا کرتے تھے۔اس کے علاوہ جریدے میں ان کی نظمیں بھی شائع ہوتی تھیں اور اس زمانے میں کوئز کا سلسلہ شروع کیا جب اس سے نوجوان واقف نہ تھا۔ ماہنامہ ٹارزن اس دور کابہت معیاری جریدہ تھا۔

اس کے ساتھ ہی ماہنامہ جاسوسی دنیا بھی جاری کیا، جو جاسوسی کہانیوں کے علاوہ قہقہوں اور دلچسپیوں کا حسین گہوارہ تھا۔ عموماً ہرجریدے میں ایک پورا جاسوسی ناول ہوا کرتا تھا۔ اور اس ناول کو وہ ابو صفی بی اے کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے۔ جبکہ جاسوسی دنیا کے ایڈیٹرکی حیثیت سے اپنا نام یعنی عادل جہانگیری دیتے تھے۔ اس کا دفترکراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں تھا۔
دونوں جریدے ماہنامہ جاسوسی دنیا اور ماہنامہ ٹارزن دس سال تک باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے۔ بعد میں عادل صاحب نے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کا پیشہ اختیار کرلیا۔ لیکن تصنیف و تالیف اور مصوری کا کام جاری رکھا۔
سن 1968 میں اسرائیل کے خوفناک منصوبے اور کانا دجال کے نام سے دو کتابیں تصنیف کیں۔4 جنوری 1991 کو کراچی میں مختصر علالت کے بعد اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے اور عزیز آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ان کے چار بیٹے شبیر ابن عادل، شکیل احمد عادل، شمیم احمد عادل اور محمد علی عادل اور دو صاحبزادیاں ہیں۔
٭٭٭