تلخ نوائی…ایک اور سولہ دسمبر* اظہار الحق

مادھو نے یہ کینٹین ‘ ٹھیک ایک سو سال پہلے‘1921ء میں شروع کی۔یہ وہی سال ہے جب ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ 1905ء کی تقسیمِ بنگال ‘ قیامِ پاکستان کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔ مشرقی بنگال اور آسام کو‘ جہاں مسلم اکثریت تھی‘ الگ صوبہ قرار دیا گیا۔ ڈھاکہ اس صوبے کا صدر مقام تھا۔ یہ تقسیم مسلمانوں کے مفاد میں تھی۔ انہیں ترقی کے مواقع ملنے تھے۔ مگر کانگریس اور دیگر ہندو لیڈروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ انہوں نے تقسیم کے خلاف ایک منظم مہم چلائی اور بالآخر 1911ء میں انگریز سرکار نے یہ تقسیم منسوخ کر دی؛ تاہم مسلمانوں کی علیحدگی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ نواب سر سلیم اللہ کی قیادت میں مسلمانوں کے وفد نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کیا۔یہ وہی نواب سلیم اللہ ہیں جنہوں نے1906ء میں مسلم لیگ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔نواب صاحب نے اپنی جائداد سے چھ سو ایکڑ ڈھاکہ یونیورسٹی کے لیے وقف کیے۔ مغربی بنگال کے ہندو طنز سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔

مادھو نے یونیورسٹی حکام کی اجازت سے یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے کھانے پینے کا بندو بست شروع کیا اور پھر مادھو کی کینٹین‘ یونیورسٹی کی ضرورت بن گئی۔ سیاست ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے ہمیشہ آکسیجن کی طرح رہی ہے۔ لامحالہ طلبہ تنظیموں کے نمائندے بھی کینٹین میں آکر بیٹھتے تھے۔ یوں کینٹین ہمیشہ سے سیاسی سر گرمیوں کا مرکز رہی۔ اس کالم نگار نے بھی یونیورسٹی میں قیام کے دوران اس کینٹین سے اڑھائی برس تک ‘ دوستوں کی معیت میں‘ چائے پی اور سموسے کھائے۔

مادھو کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اگر طلبہ کینٹین میں بیٹھ کر سیاسی بحثیں کرتے تھے تو وہ کیا کر سکتا تھا۔ مگر طاقت نے کبھی منطق دیکھی نہ انصاف کیا۔ 25 مارچ 1971ء کو ایکشن شروع ہوا۔ اگلے دن مادھو کی بیوی‘ بیٹا اور بہو موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔پھر مادھو بھی مار دیا گیا۔ مگر طاقت سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ مادھو کی کینٹین آج بھی چل رہی ہے۔ بنگلہ دیش ہر شعبے میں پاکستان سے آگے ہے۔اس کا شمار تائیوان‘ جنوبی کوریا اور سنگاپور جیسے ایشین ٹائیگرز کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ حیران کن حقیت یہ ہے کہ جس مشرقی پاکستان کی آبادی ، مغربی پاکستان سے کہیں زیادہ تھی ، آج ساڑھے سولہ کروڑ ہے اور موجودہ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے!

اس مضمون نگار کو وہ شام کبھی نہیں بھولتی جب وہ ڈھاکہ یونیورسٹی لائبریری میں اپنے بنگالی کلاس فیلو کے ساتھ بیٹھا تھا۔ باہر شام کے سائے لمبے ہورہے تھے۔ لیچی اور املی کے درختوں کے پتے سینہ کوبی کر رہے تھے۔ اندر پنکھے تیزی سے چل رہے تھے۔ ملک کی حکمرانی جنرل ایوب خان سے جنرل یحییٰ خان کو منتقل ہو چکی تھی۔ کلاس فیلو کا ایک ہی سوال تھا : *گیارہ برس ایک جرنیل کی حکومت رہی۔ اب دوسرا آگیا ہے!* کیا ہماری باری کبھی آسکتی ہے؟ ‘‘۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد سولہ دسمبر آج پچاسویں بار آیا ہے۔ نصف صدی بیت چکی ہے مگر ہم پاکستانیوں کی اکثریت آج بھی حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پچاس برس سے بھاری اکثریت کا بیانیہ وہی چلا آرہا ہے کہ بنگالیوں پر ہندوؤں کا اثر تھا۔ یہ کہ وہ کم تہذیب یافتہ تھے۔ یہ کہ یہ غلط ہے کہ ان کا استحصال ہوا۔ یہ کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک سازش تھی۔ یہ کہ اس میں غیر ملکی ہاتھ ملوث تھا۔ حقائق سے عدم واقفیت‘ یا تعصب‘ یا ذہنی انجماد تاریخ میں قابلِ دست اندازئی پولیس کبھی نہیں رہے۔ مولوی صاحب لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ گاؤں کے باہر جو گندا جوہڑ ہے اس کے پانی سے وضو نہیں ہوتا۔ ایک کسان اٹھا۔ کہنے لگا: مولانا! میں تو ہر روز اسی کے پانی سے وضو کرتا ہوں! میرا تو ہو جاتا ہے۔ ہمارے بیانیے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔