اس نے پوچھا ہے

نظم ۔”اس نے پوچھا ہے ۔”
نظم نگار ۔ڈاکٹر پرویز شہر یار صاحب ۔
اظہار خیال ۔محمودہ قریشی آگرہ ۔
یو۔پی۔انڈیا ۔

شاعری آورد نہیں بلکہ آمد ہے ۔شاعر ہوا نہیں کرتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں ۔شاعری معراج ہے جو سیدھا دل پر اثر کرتی ہے ۔بقول رشید احمد صدیقی “شاعر کی زبان سے عالم بے خودی میں ایک ترانہ نکل جاتا ہے ۔جو سامعہ سے دماغ تک پہنچ کر ہم کو وارفتہ ہستی کر دیتا ہے ۔”شاعری عشق کا ذریعہ ہے ,احتجاج کا کا ذریعہ ہے جس سے مستفید ہوا جاتا ہے ۔اگر ہم اردو شاعری پر نظر دوڑائے تو ولی دکنی سے لے کر میر و نظیر ,غالب ناصر کاظمی وغیرہ نے موجدہ عہد تک اپنے ماحول ,اپنے تجربات کو جس خوش اسلوبی اور خوبصورتی سے شاعری میں بیان کیا ۔وہ کسی دوسری صنف میں نہیں ۔شاعری میں غزل سب سے پرانی صنف ہے ۔لکین خیالات کے تلسلسل کو نظم میں جس آسانی سے پیش کیا جا سکتا ۔وہ غزل میں نہیں۔ جیسا کہ کولرج نے نظم کے بارے میں کہا تھا ۔
“اس کا اساس صداقت کی ترجمانی نہیں بلکہ مسرت کا ادراک ہے ۔”
موجودہ اکیسویں صدی ,نثری نظم کا رواج کافی بڑھ گیا ہے ۔یہ قاری کی دلچسپی کا باعث بھی ہے ۔شاعر بھی اس میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔
ڈاکٹر پرویز شہر یار صاحب ہمارے عہد کے نمائندہ شعرا کی فہرست میں اوّلین حیثیت رکھتے ہیں۔ اب تک ان کے دو اردو شعری مجموعہ شائع ہو کر داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ پرویز شہر یار کی نثری نظمیں ایک ایسے ذہن کی تفہیم اور تشکیل ہیں جِس نے “اپنے ماحول کی ترجمانی کی ہے بلکہ , فلسفے کو اپنے رنگ سخن کے اعلیٰ پیمانوں پر اُتار کر نظم کی صورت میں پیش کیا ہے ۔
ڈاکٹر پرویز شہر یار صاحب اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لیے سادہ زبان اور سماجی موضوعات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں ۔
ساتھ ہی سادہ زور بیانی سے وہ دورِ جدید کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جو عام انسان کی ذہنی کیفیت کشمکش کو اُجاگر کرتا ہے ۔
زیر بحث ان کی نظم “اس نے پوچھا ہے ” اس میں شاعر ,شاعری اور اس کی ذہنی کشمکش شاعر کی فکری بنیادوں کے حوالے سے عمدہ بحث کی گئی ہے “پرویز شہر یار صاحب سماجی صورت حال کو عمدہ مکالماتی انداز میں بیان کرنے کے قائل ہیں ۔
ایک شاعر شاعری کیوں کرتا ہے ۔؟
دراصل شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے ۔معاشرے میں پھیلی زہر آلودہ فضا سے اس کا دل سسک اُٹھتا ہے ۔سماج اور فرد پر ہو رہے ظلم ستم کو ,اس کے مسائل کو حل کرنے کے لئے زبان عطا کرتا ہے ۔جیسا کہ نظم نگار کہتے ہیں ۔

“خامہ شاعر تو محض اک وسیلہ ہے ۔
نظم کی وحی کی طرح ۔
پیرہن بدل بدل کے صحفہ قرطاس پر اترتی ہے ۔”
شاعر تو ایک وسیلہ ہے ذریعہ ہے ۔زمانے کی رنگا رنگی اس کے اتار چڑھاوں ہر عہد میں شاعروں کی تخلیقات میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔شاعری محض کسی عہد کسی عمر اور زمانے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ شاعری ایک ایسا جزبہ ہے جو ان سب سے اوپر اٹھ کر کی جاتی ہے ۔شاعری خود نہیں کی جاتی بلکہ ہو جاتی ہے ۔شاعر بالکل مست مولیٰ ہوا کرتے جو کام ہمارے سیاسی لیڈروں کا ہوتا ہے وہ شاعر ادا کرتے ہیں۔ ان کی زبان اور زور قلم, قاری پر کچھ اس طرح اثر کرتے ہیں ۔جو عام انسان میں غور و فکر کے دروازے وا کردیتے ہیں ۔جیسا کہ نظم نگار لکھتے ہیں ۔
“وہ کب ہنستے ہوئے روتے ہیں ۔
وہ کب روتے ہوئے ہنستے ہیں ۔
وہ جس پر مرتے ہیں ۔
وہ اس کو دیکھ کر جیتے ہیں ۔”
شاعر شاعری کس طرح کرتا ہے ۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ” آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں”شاعر بھی اسی سماج کا فرد ہوتا ہے ۔بس ان کا سماجی مسائل ,جستجو کو دیکھنے کا نظریہ جدا ہوتا ہے ۔ خود نظم نگار اس کا جواب لکھتے ہیں کہ ,

“اکثر یہ کہا کرتی ہے ۔
فنون لطیفہ کی سرتاج ہے نظم ۔
آورد کی نہیں ,آمد کی معراج ہے نظم ۔”

شاعر ذہن کی ترنگوں میں بہتا چلا جاتا ہے شاعر اپنے زمانے کی کار گزاری بیان کرنے میں اپنی عمر گوا دیتا ہے۔ یعنی شاعری عمر کی محتاج نہیں ہوتی اس کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔جو سیدھے دل پر اثر کرتی ہے ۔
یہ وہ خیالات ہی ہوتے ہیں جو اس کے ذہن میں اُفان مارتے ہیں ۔کبھی آہستہ آہستہ تو کبھی زور دار بارش کی شکل میں اس کے غور و فکر کے سوتے پھوٹتے رہتے ہیں ۔

“وہ نظم ہی ہے ۔
جو ان کے بطن سے اشبار ذہن سے ۔
دل کے نہاں خانوں سے ۔
کبھی بارش کی طرح ۔
رم جھم برستی ہے ۔
کبھی بجلی کی طرح رہ رہ کر چمکتی ہے ۔”

یہ ساری کیفیت ایک شاعر ہی بخوبی سمجھ سکتا ہے۔پرویز شہر یار صاحب جس خوبصورتی سے نظم بنتے ہیں یا شاعر اپنے تخًیل کی روشنی میں کن حالات سے دو چار ہوتا ہے ۔اس کی عمدہ مثال نظم “اس نے پوچھا ہے ” یہاں ہم دیکھے تو پرویز شہر یار خود اپنی ترجمانی بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔
موضوع مناسب نظم” اس نے پوچھا ہے ” میں ایک عمدہ موضوع پر فنی نقطہ نظریے سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔شاعر کی نفسیات, حثیت, اس کے اپنے تجربات و خیالات کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ نظم نگار نے نظم کی صورت میں ڈھالا ہے ۔ جو شاعری کا منظرنامہ کہا جا سکتا ہے

بشکریہ چراغ ہمیش و انجلا ہمیش ۔