پاکستان کی چین کے دشمنوں سے دوستی

تحریر : وجیہ احمد صدیقی
سری لنکا کے مینجر کا جنونی ہجوم کے ہاتھوں قتل اور پھر ایک صحیح سلامت شخص کو جس کے جسم پر ایک خراش تک نہیں آئی اسے تمغہ شجاعت کے لیے نامزد کرنا اوربہادری کا ایوارڈ دینا سمجھ سے با لاتر ہے۔ اس شخص کا دعویٰ ہے کہ اس نے سری لنکن پرینتھا کمارا کو بچانے کی کوشش کی تھی ۔اس شخص کا دعویٰ باطل معلوم ہوتا ہے اس نے پولیس کو کیوں اطلاع نہیں دی ؟ اکیلے کیسے وہ منیجر کو بچا رہا تھا ، فیکٹری کے دوسرے افسران کہاں تھے ؟کسی نے پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی ؟ کیا ملک عدنان بھی ان لوگوں میں شامل ہے جس نے پولیس کو اطلاع نہیں دی؟اگر پولیس کو اطلاع ملی تو کیایہ سچ ہےکہ پولیس یہ اطمینان کرنےکے بعد کہ سری لنکن مینجر کا خاتمہ ہوگیا ہے تب پہنچی۔موقع واردات پر گرفتاری کیوں نہیں کی ؟اب حکومت اپنی ناکامی کا جشن منا رہی ہے کہ فلاں نے بڑا کارنامہ انجام دیا اور یہ انتہا پسندی کا نتیجہ ہے وغیرہ وغیرہ ،جبکہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے یہ بیان داغ دیا کہ نوجوان جوش میں آگئے اور میں بھی ایسا کر سکتا تھا، یہ محض غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں ہے بلکہ یہ رویہ اس طرز فکر کی نمائندگی کرتا ہے کہ کسی نظریے کو بدنام کرنے کے لیے ایک ڈرامہ رچایا جائے اوراس نظریے کو جس کا نظریاتی طور پر مقابلہ کرنا ممکن نہیں اس پر دہشت گردی کا الزام لگا دیا جائے یہ وہی کھیل ہے اور اس کھیل کا اصل نشانہ قانون ناموس رسالت ہے اور پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری ہے ۔امریکہ دنیا بھر میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی بالادستی سے خوفزدہ ہے ، پاکستان میں سی پیک منصوبہ چین کی رسائی کو مشرق وسطیٰ کی مالدار ترین منڈی تک پہنچا رہا تھا لیکن امریکہ نے اس منصوبے کو زک پہنچانے کے لیے تحریک انصاف اوراس کے سرپرستوں کو استعمال کیا ہے ۔ 2014 میں چینی صدر کی پاکستان آمد کے موقع پر اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس اور پاکستان سیکریٹریٹ کے حساس علاقےمیں پی ٹی آئی اورڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا دے کر امریکی مشن کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔تحریک انصاف کو اپنا سیاسی مشن پورا کرنے کے لیے غیر ملکی ذرائع سے فنڈنگ کی گئی ، نومبر 2014 سے الیکشن کمیشن میں اس فارن فنڈنگ کے چشم دید گواہ اکبر ایس بابرنے پٹیشن دائر کی اور سارے ثبوت دیے جن کو آج تک پی ٹی آئی غلط نہیں ثابت کرسکی ان میں ،غیر قانونی فنڈنگ ،منی لانڈرنگ کے الزامات کے ثبوت ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنے ان غیر ملکی سرمایہ کاروں کی فکر ہے اوراسی لیے ترک وطن کرنے والے اور پاکستانی شہریت کے ساتھ دوسرے ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانے والوں کو جس طریقے سے ووٹ کا حق دیا جارہا ہے وہ پاکستان کے آئین کے بنیادی اصولوں اوربنیادی حقوق کے آرٹیکل کی خلاف ورزی ہے ۔ لیکن اصل مشن پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کوروکنا ہے ۔ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے اورروپے کی قدر کو مسلسل گرانے جیسے عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ اس زہریلے منصوبے کو پورا کرتے ہوئے جب سے پی ٹی آئی حکومت آئی برسر اقتدار آئی ہے ۔ پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئر اورماہرین قتل ہوتے رہے ہیں ۔ ان کے قتل کا الزام مختلف دہشت گرد تنظیموں پر لگایا جاتا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پی ٹی آئی حکومت ان چینی باشندوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے جس طرح سری لنکن منیجر کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے ۔صرف اسی سال کئی چینی انجینئرز مارے گئے،14 جولائی 2021کو داسو میں بس پر دہشت گردانہ حملہ ہوا 13 لوگ مارے گئے ان میں 9 چینی انجینئرز تھے ۔پاکستان کے لیے یہ باعث شرم واقعہ تھا لیکن پی ٹی آئی حکومت بڑکیں مار کر خاموش ہوگئی۔پھر اگلے ہی مہینے گوادر میں 6 چینی انجینئرز کو ایک خود کش حملے میں ہلاک کردیا گیا ۔60 ارب ڈالر کے اس منصوبے کو ختم کرکے پی ٹی آئی حکومت پاکستان پر اربوں ڈالر کے قرض چڑھا رہی ہے ۔اب وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان کسی بلاک میں شامل نہیں ہوگا ۔یہ کوئی غیر جابنداری نہیں ہے اصل مقصد یہ ہے کہ وہ چین کا ساتھ نہیں د ینا چاہتے بلکہ اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں ، امریکہ کی ہدایت پر کرتار پور میں بھارتی باشندوں کے داخلے کی اجازت بھارت کے ہاتھ میں دے دی ، بھارت نے کشمیر کو آئینی طور پر ہڑپ کرلیا اور آزاد کشمیراپنا حصہ قرار دے دیا ۔ پاکستانی حکومت صرف بیان بازی کرتی رہی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ،ابھی نندن کو گھبرا کر واپس کردیا ، کل بھوشن یادو کی سہولت کے لیے قانون بنایا اور اپنے شہریوں کے سر سے ان کی چھت بھی چھین لی انہیں سڑک پر لاکھڑا کیا ۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ پاکستان پر وہ لوگ حکمرانی کررہے ہیں جنہیں پاکستانی قوم نے ووٹ دے کر منتخب ہی نہیں کیا ،پاکستان کی قومی سلامتی اور ایٹمی پروگرام کی باگ ڈور پاکستان کے اسلامی نظام اورایٹمی پروگرام کے مخالف ڈاکٹر معید یوسف کے ہاتھ میں ہے جو اس سے قبل امریکی سی آئی اے کے تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس واشنگٹن میں ملازمت کررہے تھے ۔ان کی ریسرچ کا محورپاکستان کی اسلامی شناخت کو مسخ کرنا اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو محدود کرکے ختم کرنا رہتا تھا ۔یہ پاکستان کے آئین کے بھی مخالف تھے کہ اس میں ختم نبوت کے حوالے سے مسلمان کی تعریف کردی گئی ہے کہ ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والامسلمان نہیں ہے ۔جسے معید یوسف تسلیم نہیں کرتے رہے ہیں یہ ان کی تحریروں سے واضح ہے۔جب وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اقتصادی مشیر عاطف میاں کی تقرری کا فیصلہ عوامی دبائو پر واپس لیا تھا تو اس پر ڈاکٹر معید یوسف نے عمران خان پر لعن طعن کی تھی ۔امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق واشنگٹن میں قائم یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے اسکالر معید یوسف نے کہا کہ “پاکستانی معاشرہ شدید عدم برداشت کا شکار ہو چکا ہے اور اس سے کہیں زیادہ ہم اس طرح کے خیالات سے ہمدردی رکھتے ہیں۔” میاں کا استعفیٰ “اسلام پسندوں کی طاقت اور ریاست اور معاشرہ دونوں کی احمدیوں ( قادیانیوں )کے ساتھ کھڑے ہونے میں ہچکچاہٹ کو ظاہر کرتا ہے جس سے قادیانی خوفزدہ ہیں انہیں جسمانی اور مالی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔”عاطف میاں کا اچانک استعفیٰ 500,000 پر مشتمل احمدی کمیونٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا، جو پہلے ہی اذیت اور خوف کا شکار ہے۔ بہت سے احمدیوں کو خدشہ ہے کہ اب وہ اپنی ملازمتیں کھو سکتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو بعض اسکولوں میں داخلے سے اکثر انکار کر دیا جاتا ہے۔پاکستان نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے 1974 میں اپنے آئین میں تبدیلی کی۔ دس سال بعد، حکومت نے احمدیوں کے لیے “مسلمان ظاہر کرنے” کو مجرمانہ جرم قرار دیا۔ انہیں اپنی عبادت گاہوں کو مساجد کہنے سے منع کیا گیا ہے اور وہ اذان نہیں دے سکتے۔ یہاں تک کہ احمدیوں کو عام عربی سلام “السلام وعلیکم” استعمال کرنے کی سزا دی گئی ہے، جس کا مطلب ہے “آپ پر سلامتی ہو۔”اسی خبر میں فواد چوہدری کا بھی قادیانیوں کے حق میں بیان شامل کیا گیا ہے ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر اے پی کی خبر میں لعن طعن کی گئی ہے ۔یہ خبر 28 ستمبر 2018 کو شائع ہوئی تھی ۔عمران خان نے پاکستان کے آئین کو گالی دینے والے کو قومی سلامتی کا مشیر بنا دیا جو پاکستان کے آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔اور یہ کہتا ہے کہ ایک قادیانی کو اگر مشیر نہ بنایا تو ان میں عدم تحفظ پیدا ہوجائے گا۔یہ کیسی منطق ہے ؟یہ تو نری دھمکی تھی ۔اس کے بعد موصوف 24 دسمبر 2019 سے 17 مئی 2021 تک قومی سلامتی پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی رہے اورپھر نہ جانے کیا ہوا کہ 17 مئی 2021 کو مشیر قومی سلامتی بنا دیے گئے ۔یہ وہ شخص ہے جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہمیشہ بولتا رہا ہے ۔میرا موضوع ان کی شخصیت پر تبصرہ کرنا نہیں ہے ۔ لیکن جو تجزیہ میں کرنے والا ہوں اس کا پس منظر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے وہ ارکان جن کو ووٹ لینے کے لیے عوام کے پاس جانا ہے ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ہے ۔اہم محکمے غیر منتخب اور غیر ملکی شہریت رکھنے والوں کے ہاتھ میں ہے ۔مشیر خزانہ جبراً منتخب کرائے جارہے ہیں، لیکن ملکی معیشت کی ڈگڈگی رضا باقر کو دے دی گئی ہے جو آئی ایم ایف کے حکم پر پاکستانی معیشت کو اس نہج پر پہنچا رہا ہے جہاں پہنچ کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سودا کیا جاسکے ۔ملک میں مہنگائی اس نہج پر پہنچائی جارہی ہے کہ لوگ سڑکوں پر آئیں اور پر تشدد کارروائیاں کریں اس کام کے لیےوزارت داخلہ عملاً بیرسٹر شہزاد اکبر کے ہاتھ میں ہے ۔ شیخ رشید تو محض دکھاوے کے لیے رکھے گئے ہیں ۔حکومت کے تمام ترجمان غیر منتخب ہیں جو اپوزیشن کے منتخب ارکان پر عملاً بھونکتے ہیں ۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک کے باہر ایک کروڑ پاکستانی رہتے ہیں ان کو ووٹ کا حق ان کے پرانے حلقوں میں دیا جائے گا۔یہ قانون آئین سے متصادم ہے ووٹ کا حق صرف ان لوگوں کو دیا جاسکتا ہے جنہوں نے دوسری شہریت نہیں اختیار کی اور ان کے پاکستان واپس آنے کے امکانات ہیں ۔ لیکن یہ ترمیم ناقابل عمل ہے اورالیکٹرانک ووٹنگ مشین بھی ایک ڈھونگ ہے اگر اس مشین کو ووٹنگ کے لیے استعمال کیا گیا تو جتنی تعداد میں یہ مشین درکار ہوگی اس کی خریداری کے لیے پاکستان کے مکمل بجٹ کی کم ازکم نصف رقم تو درکار ہوگی اوراتنے ہی ماہرین جو لوگوں کو اس کا طریقہ استعمال بتائیں جس اسمبلی کے اراکین نے یہ ترمیم منظور کی ہے وہ خود اسمبلی میں موجود الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو استعمال کرنا نہیں جانتے اور نہ اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ سسٹم چلانا آتا ہے اور نہ ہی چیرمین سینیٹ کو اس الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو استعمال کا طریقہ آتا ہے ۔یہ ترامیم صرف پاکستان پر غیر ملکی تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے ہیں ۔کیونکہ پاکستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی نام بدل کر حکومت کررہی ہے ۔