یزید بن معاویہ کے لشکر کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی مسماری

یزید کے ہاتھوں کعبہ کی بے حرمتی
ابن خلدون کے یہ الفاظ یزید بن معاویہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں چونکہ جب تک کسی آدمی میں اںحرافات اور تباہکاری کے جراثیم پوری طرح نہ پائے جاتے ہوں اس وقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی برائیاں سب پر واضح و آشکار ہوچکی ہیں۔چونکہ جب تک انحرافات بڑی تعداد میں نہ ہو تو کسی نہ کسی صورت تأویل،اور احتمالات کا دروازہ کھلا رہتا ہے ۔لیکن تاریخ کے مسلم حقیقت ہے کہ یزید کی برائیاں اس معاشرہ کے ہر فرد کی زبان زد تھیں اور کسی بھی شخص کو اس کے فسق و فجور میں کوئی شک و تردید کی گنجائش نہیں تھی۔
یزید کے ہاتھوں کعبہ کی بے حرمتی
ولایت پورٹل: تاریخ بشریت میں کچھ ایسے منحوس لوگوں کے نام ملتے ہیں جن کا صرف نام ہی لیا جائے تو ان کی تخریبات کی طویل فہرست نظروں کے سامنے آجاتی ہے اور لباس انسانی میں ایسے لوگوں کا وجود درندوں کو بھی شرمانے پر مجبور کردیتا ہے۔
بالیقین یزید بن معاویہ بھی انہیں لوگوں میں سے ایک ہے کہ جو بذات خود تمام رذائل،پستیوں لذت پرستی،خود نمائی اور حیوانی و درندگی کا مجموعہ ہے آئیے ہم اپنی بات کا آغاز عالم اسلام کے مشہور مورخ ابن خلدون سے شروع کرتے ہیں وہ اپنی کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
ہم امام حسین کے بارے میں کیا تحریر کریں،جس وقت یزید کا فسق و فجور اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر آشکار ہوگیا تو کوفہ میں اہل بیت پیغمبر(ص) کے ماننے والوں نے امام حسین(ع) سے درخواست کی کہ وہ کوفہ چلے آئیں تاکہ وہ آپ کے ساتھ مل کر یزید کے خلاف قیام میں آپ کا ساتھ دے سکیں۔( مقدمه تاریخ، ابن خلدون، ص 216)
ابن خلدون کے یہ الفاظ یزید بن معاویہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں چونکہ جب تک کسی آدمی میں اںحرافات اور تباہکاری کے جراثیم پوری طرح نہ پائے جاتے ہوں اس وقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی برائیاں سب پر واضح و آشکار ہوچکی ہیں۔چونکہ جب تک انحرافات بڑی تعداد میں نہ ہو تو کسی نہ کسی صورت تأویل،اور احتمالات کا دروازہ کھلا رہتا ہے ۔لیکن تاریخ کے مسلم حقیقت ہے کہ یزید کی برائیاں اس معاشرہ کے ہر فرد کی زبان زد تھیں اور کسی بھی شخص کو اس کے فسق و فجور میں کوئی شک و تردید کی گنجائش نہیں تھی۔
چنانچہ خلفاء کے متعلق تاریخ لکھنے والے تمام مورخین، من جملہ سیوطی نے سب سے منحوس نام یزید کا بتایا ہے چونکہ اسی کے منحوس دور میں اسلام پر سب سے زیادہ مصیبتیں ٹوٹی ہیں اور مقدس ہستیوں اور بستیوں کی بے حرمتی ہوئی ہے۔
یزید کا ساڑھے تین برس کا منحوس دور اور عالم اسلام پر مصیبتیں:
1۔امام حسین(ع) کا قتل:اگر یزید کی بات کی جائے تو کون سی بری عادت اور رذیلت ایسی نہیں تھی جو اس میں نہ پائی جاتی ہو۔البتہ ہم اس کی انفرادی ،اخلاقی برائیوں کی بات نہیں کررہے ہیں وہ تو اس میں بدرجہ اتم موجود تھیں مثلاً شراب پینا،جوا کھیلنا،زنا کرنا وغیرہ۔
ہم یزید کی ان برائیوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جس سے دین کا نقصان ہوا جس سے امت کا خسارہ ہوا چنانچہ ان سب جرائیم میں سے یزید کا سب سے بڑا جرم وارث و نواسہ رسول خدا(ص) امام حسین علیہ السلام اور آپ کے با وفا اصحاب کا کربلا میں بے رحمانہ قتل تھا جس کے سبب چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلمان جس نے بھی اس دردناک واقعہ پر مطالعہ کیا یا کچھ تحریر کیا اس کے ساتھ ساتھ قلم بھی رونے لگا۔
2۔مدینہ رسول کی بے حرمتی: تاریخ میں مرقوم ہے کہ شہادت امام حسین(ع) کے بعد امت اسلامی کی بیداری کا آغاز ہوگیا اور ہر طرف سے یزید اور اس کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج ہونے لگے یہاں تک کہ کچھ جگہ سے تو مسلح تحریکوں کا بھی آغاز ہوا جیسا کہ خود مدینہ منورہ سے۔ اور لوگوں نے بیعت یزید کا جبری قلادہ اپنی گردنوں سے اتار کر پھینک دیا۔ جب یہ خبر یزید کو ملی تو اس نے اپنے جلّاد ترین سردار مسلم بن عقبہ کی سرکردگی میں 4 ہزار کا لشکر مدینہ رسول(ص) کو تاراج کرنے کے لئے بھیج دیا اور مسلم نے یہ اعلان عام کیا کہ یزید خلیفہ ہے اور جسے اس کی بیعت منظور نہ ہو وہ شمشیر کا مزہ چکھنے کے لئے آمادہ رہے چنانچہ مسجد رسول(ص) کو اصطبل بنا دیا گیا مسلسل 3 دن تک حرمتیں پامال ہوتی رہیں اور نالیوں میں پانی کی جگہ خون بہتا رہا۔
3۔خانہ کعبہ سے بلند ہوتے آگ کے شعلے
روایات کے مطابق 3 جمادی الاول سن 64 ہجری میں یزید نے جو لشکر مدینہ کو تاراج کرنے کے لئے بھیجا تھا اسے خانہ خدا کو ڈھانے کی غرض سے روانہ ہونے کا حکم دیدیا گیا اور یہ واقعہ یزید کے واصل جہنم ہونے سے صرف 11 دن پہلے کا ہے اس نے مسلم بن عقبہ کو مأمور کیا کہ وہ منجنیق سے کعبہ کو پامال کردے لیکن مکہ پہونچ کر مسلم واصل جہنم ہوگیا اور اس کی جگہ حصین بن نمیر کو سردار مقرر کردیا گیا۔
یزید ابن معاویہ کے سیاہ کارناموں اور جرائیم سے کتابیں بھری پڑی ہیں چنانچہ اہل سنت کے بہت سے مشہور مورخین جیسا کہ طبری،ابن اثیر نے خانہ کعبہ کی تاراجی کا منظر کچھ ان الفاظ میں کیا ہے:
واقعہ عاشورا کے بعد پورے عالم اسلام سے بہت سی تحریکوں نے بنی امیہ کی حکومت کے خلاف سر اٹھائے ان میں کچھ قیام تو امام حسین علیہ السلام کے خون ناحق کے انتقام کے لئے اٹھے تھے جبکہ کچھ دیگر تحریکیں دوسرے مقاصد کے لئے وجود میں آئیں تھیں۔ان میں ایک نام جو یزید کی غیر شرعی حکومت کی مخالفت میں مشغول اور خود کو خلافت اسلامیہ کا داعی کہنے والا عبد اللہ بن زیبر تھا لہذا حصین بن نمیر نے شہر مکہ کے باہر پہلے عبد اللہ بن زبیر کے لشکر سے دو دو ہاتھ کئے لیکن اس کو لڑائی میں شکست ہوئی اور ہزیمت اٹھا کر بھاگنا پڑا فوج کے بہت سے لوگ شہر مکہ میں امان پانے کی غرض سے داخل ہوگئے لیکن فراریوں کو اپنا نشانہ بنانا تو بنی امیہ کی پرانی تاریخ رہی ہے لہذا فوج نے دو مہینہ تک شہر مکہ کا محاصر کرکے رکھا اور اسی دوران خانہ کعبہ پر منجنیق کے ذریعہ پتھر برسائے اور آگ لگادی گئی۔
بشکریہ ولایئت ڈات کام
وکی پیڈیا کے مطابق یہ واقعہ 2 نومبر 683 عیسوی کا ھے