میرتقی میؔر21؍ستمبر یومِ وفات

21؍ستمبر 1810

*اردو کے پہلے عظیم شاعر جنہیں ’ خدائے سخن ‘ کہا جاتا ہے ۔” میرتقی میؔرصاحب “ کا یومِ وفات…*

*میرتقی میرؔ* کا اصل نام *محمد تقی* تھا۔ ان کے والد،علی متقی اپنے زمانہ کے صاحب کرامت بزرگ تھے۔ ان کے اجداد حجاز سے ترک سکونت کرکے ہندوستان آئے تھے اور کچھ عرصہ حیدرآباد اور احمد آباد میں گزار کر آگرہ میں مقیم ہو گئے تھے۔میرؔ آگرہ میں ہی پیدا ہوئے۔میر کی عمر جب گیارہ بارہ برس کی تھی اان کےو الد کا انتقال ہو گیا۔میر کے منہ بولے چچا امان اللہ درویش ،جن سے میر بیحد مانوس تھے، پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔جس کا میر کو بہت صدمہ تھا۔باپ اور اپنے مشفق امان اللہ کی موت نے میر کے ذہن پر غم کے دیر پا نقوش ثبت کر دئے جو ان کی شاعری میں جا بجا ملتے ہیں۔والد کی وفات کے بعد ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا۔وہ بڑی کسمپرسی کی حالت میں تقریباً چودہ سال کی عمر میں دہلی آ گئے۔دہلی میں صمصام الدولہ،امیر الامراء ان کے والد کے عقیدتمندوں میں سے تھے۔انہوں نے ان کا ایک روپیہ روزینہ مقرر کر دیا جو ان کو نادر شاہ کے حملہ تک ملتا رہا۔صمصام الدولہ نادر شاہی قتل و غارت میں مارے گئے۔ذریعہ معاش بند ہو جانے کی وجہ سے میر کو آگرہ واپس جانا پڑا لیکن اس بار آگرہ ان کے لئے پہلے سے بھی بڑا عذاب بن گیا۔کہا جاتا ہے کہ وہاں ان کو اپنی ایک عزیزہ سے عشق ہو گیا تھا جسے ان کے گھر والوں نے پسند نہیں کیا اور ان کو آگرہ چھوڑنا پڑا۔وہ پھر دہلی آئے اور اپنے سوتیلے بھائی کے ماموں اور اپنے وقت کے جید عالم،سراج الدین آرزو کے پاس ٹھہر کر تحصیل علم کے جویا ہوئے۔نکات الشعراء میں میر نے ان کو اپنا استاد کہا ہے لیکن ذکر میر میں میر جؑفری علی عظیم آبادی اور امروہہ کے سعادت علی خان کو اپنا استاد بتایا ہے۔موخرالذکر نے ہی میر کو ریختہ لکھنے کی ترغیب دی تھی۔میر کے مطابق خان آرزو کا سلوک ان کے ساتھ اچھا نہیں تھا اور وہ اس کے لئے اپنے سوتیلے بھائی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔وہ ان کے سلوک سے بہت دل بر داشتہ تھے۔ممکن ہے کہ آگرہ میں میر کی عشق بازی نے ان کو آرزو کی نظر سے گرا دیا ہو۔اپنے اس عشق کا تذکرہ میر نے اپنی مثنوی خواب و خیال میں کیا ہے۔میر نے زندگی کے ان تلخ تجربات کا گہرا اثر لیا اور ان پر جنوں کی کیفیت طاری ہو گئی۔کچھ عرصہ بعد دوا علاج سے جنوں کی شدت تو کم ہوئی مگر ان تجربات کا ان کے دماغ پر دیر پا اثر قائم رہا۔
میر نے خان آرزو کے گھر کو خیر باد کہنے کے بعد اعتماد الدولہ قمرالدین کے نواسے رعایت خان کی مصاحبت اختیار کی اور اس کے بعد جاوید خاں خواجہ سرا کی سرکار سے متعلق ہوئے۔اسد یار خاں بخشی فوج نے میر کا حال بتا کر گھوڑے اور “تکلیف نوکری” سے معافی دلا دی۔مطلب یہ کہ برائے نام سپاہی تھے کام کچھ نہ تھا۔اسی عرصہ میں صفدر جنگ نے جاوید خاں کو قتل کرا دیا اور میر پھر بیکار ہو گئے۔تب مہا نراین ،دیوان صفدر جنگ، نے ان کی دستگیری کی اور چند مہینے فراغت سے گذرے۔اس کے بعد کچھ عرصہ راجہ جگل کشور اور راجہ ناگر مل سے وابستہ رہے۔راجہ ناگر مل کی رفاقت میں انہوں نے بہت سے مقامات اور معرکے دیکھے۔ان مربیوں کے حالات بگڑنے کے بعد وہ کچھ عرصہ گوشہ نشین رہے۔جب نادر شاہ اور احمد شاہ کی خونریزیوں نے دہلی کو اجاڑ دیا اور لکھنو آباد ہوا تو نواب آصف الدولہ نے انہیں لکھنو بلا لیا۔میر لکنوب کو برا بھلا کہنے کے باوجود وہیں رہے اور وہیں تقریباً 90 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔میر نے بھر پور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری ۔سکون و راحت کا کوئی طویل عرصہ ان کو نصیب نہیں ہوا۔
میر نے اردو کے چھ دیوان مرتب کئے جن میں غزلوں کے علاوہ قصائد،مثنویاں رباعیات اور واسوخت وغیرہ شامل ہیں۔نثر میں ان کی تین کتابیں نکات الشعراء،ذکر میر اور فیض میر ہیں ۔موخرالذکر انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے لکھی تھی۔ ان کا ایک فارسی دیوان بھی ملتا ہے۔
*میر تقی میرؔ، ٢١؍ستمبر١٨١٠ء* کو *لکھنؤ* میں وفات پائی ۔

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

💐💐 *خدائے سخن، عظیم شاعر میر تقی میرؔ کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…* 💐💐

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

راہِ دورِ عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

*پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے*
*جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے*

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

پیمانہ کہے ہے کوئی مے خانہ کہے ہے
دنیا تری آنکھوں کو بھی کیا کیا نہ کہے ہے

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے

پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے
پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اس سے آنکھیں لڑیں تو خواب کہاں

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے

اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں اندازِ گفتگو کا

جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے

*ہستی اپنی حباب کی سی ہے*
*یہ نمائش سراب کی سی ہے*

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
جمالِ یار نے منہ اس کا خوب لال کیا

*پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں*
*اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی*

روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں

عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق

تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا

آورگانِ عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشتِ غبار لے کے صبا نے اڑا دیا

آہ سحر نے سوزشِ دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

تھا مستعارِ حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

کچھ ہو رہے گا عشق و ہوس میں بھی امتیاز
آیا ہے اب مزاج ترا امتحان پر

روئے سخن ہے کیدھر اہلِ جہاں کا یا رب
سب متفق ہیں اس پر ہر ایک کا خدا ہے

*الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا*
*دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا*

آگے جمالِ یار کے معذور ہو گیا
گل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہو گیا

اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا

*مانند شمع مجلسِ شب اشکبار پایا*
*القصہ میرؔ کو ہم بے اختیار پایا*

کثرتِ داغ سے دل رشکِ گلستاں نہ ہوا
میرا دل خواہ جو کچھ تھا وہ کبھو یاں نہ ہوا

*گل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میرؔ*
*اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو*

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🔲◼️ *میر تقی میؔر*◼️🔲

*انتخــــــــــاب : اعجاز زیڈ ایچ*