مختار صدّیقی یومِ وفات18؍ستمبر

18؍ستمبر 1972

*اردو کے نامور شاعر‘ ادیب‘ نقاد اور براڈ کاسٹر” مختار صدّیقی صاحب “ کا یومِ وفات…*

*مختار صدیقی، یکم؍مارچ ١٩١٧ء* کو *سیالکوٹ* میں پیدا ہوئے اور انہوں نے تعلیمی زندگی کے مدارج گوجرانوالہ اور لاہور میں طے کیے‘ وہ *سیمابؔ اکبر آبادی* کے شاگرد تھے اور شاعر اور مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت عمدہ براڈ کاسٹرتھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن کے قیام کے بعد ٹیلی ویژن میں بطور اسکرپٹ ایڈیٹر منسلک ہوئے۔
مختار صدیقی کی شاعری کے مجموعے منزل شب‘ سہ حرفی اور آثار کے نام سے شائع ہوئے۔ انہوں نے چینی مفکر ڈاکٹر لن یو تانگ کی دو کتابوں کے ترجمے جینے کی اہمیت اور جینے کا قرینہ کے نام سے کیے جو بہت مقبول ہوئے۔
*١٨؍ستمبر١٩٧٢ء* کو اردو کے نامور شاعر‘ ادیب‘ نقاد اور براڈ کاسٹر جناب مختار صدّیقی وفات پا گئے اور لاہور میں اچھرہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

🌹✨ *_پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ_*

●━─┄━─┄═•••✺❀✺•••═┄─━─━━●

💐 *معروف شاعر مختار صدّیقی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…* 💐

جن خیالوں کے الٹ پھیر میں الجھیں سانسیں
ان میں کچھ اور بھی سانسوں کا اضافہ کر لیں

بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
وسعتیں ان میں وہی لاتے ہیں ویرانوں کی

عبرت آباد بھی دل ہوتے ہیں انسانوں کے
داد ملتی بھی نہیں خوں شدہ ارمانوں کی

میری آنکھوں ہی میں تھے ان کہے پہلو اس کے
وہ جو اک بات سنی میری زبانی تم نے

نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی
کب التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی

کبھی فاصلوں کی مسافتوں پہ عبور ہو تو یہ کہہ سکوں
مرا جرم حسرتِ قرب ہے تو یہی کمی یہاں سب میں ہے

رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں
جو آشفتہ سری ہے مقدر اس میں قید مقام کہاں

سحرِ ازل کو جو دی گئی وہی آج تک ہے مسافری
اسے طے کریں تو پتہ چلے کہاں کون کس کی طلب میں ہے

پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے
یہ چال ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی

کیا کیا پکاریں سسکتی دیکھیں لفظوں کے زندانوں میں
چپ ہی کی تلقین کرے ہے غیرت مند ضمیر ہمیں

میں تو ہر دھوپ میں سایوں کا رہا ہوں جویا
مجھ سے لکھوائی سرابوں کی کہانی تم نے

ترے جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی
کہ تھا شب سے دن کبھی تیرہ تر کبھی شب ہی آئنہ رو ملی

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🔲 *_مختار صدّیقی_* 🔲

*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*