انیس ناگی پیدائش 10 ستمبر

ڈاکٹر انیس ناگی Anis Nagi، (پیدائش: 10 ستمبر، 1939ء- وفات: 7 اکتوبر، 2010ء) پاکستان کے نامور محقق، افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد، کالم نگار، مترجم اور شاعر تھے۔
انیس ناگی 10 ستمبر 1939ء کو شیخوپورہ میں ابراہیم ناگی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام ” یعقوب علی ناگی ” تھا۔ انہوں نے مسلم ہائی اسکول نمبر 2 لاہور سے میٹرک کیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹر اور اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے (اردو) کیا۔ جامعہ پنجاب سے اردو ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین راوی کے مدیر بھی رہے۔ بعد ازاں انیس ناگی نے سول سروس کا امتحان پاس کیا اور ڈپٹی سیکرٹری ایجوکیشن سمیت مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ 1999ء میں وہ بورڈ آف ریونیو کے ارکان کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔

ادبی خدمات
انیس ناگی کا ادبی سفر بہت طویل ہے۔ انہوں نے شاعری، ناول، افسانہ، تنقید اور تراجم میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بہت احسن طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے جذباتی نثر کی بجائے کارآمد نثر تخلیق کی اور شعوری طور پر ناول کو ادبی زبان کے برعکس عام بول چال میں قلمبند کیا۔ عام معاشرتی اور سیدھی سادی زبان میں قاری کے سامنے اپنی تخلیقات پیش کیں۔ ان کی جدید اردو نظم کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی بہت پزیرائی ملی۔ وہ ساٹھ کی دہائی میں نئی شاعری کی تحریک کے نام سے سامنے آنے والے ان لوگوں میں شامل تھے جن کے لیے رائج شاعری کا روایتی پیرایہ اور اظہار ناقابلِ قبول تھا اور وہ شاعری میں نئے اظہار کو رواج دینا چاہتے تھے۔ نئی شاعری کی اس تحریک کے نمایاں لوگوں میں ان کے ساتھ جیلانی کامران، افتخار جالب، محمد سلیم الرحمان، عباس اطہر، زاہد ڈار، فہیم جوزی اور سعادت سعید کے نام بھی شامل ہیں۔

اردو کے معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر ان کا بے شمار کام ہے اور ان کے ناولوں میں اہم ترین ناول زوال ہے جس میں ایک ڈھلتی عمر کے بیوروکریٹ کے بتدریج بے رحمانہ ذہنی اور جسمانی انتشار کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کا دوسرا مقبول ناول دیوار کے پیچھے ہے جسے اردو میں ناول کی نئی روایت کا آغاز کہا جاتا ہے جس میں انسان کے وجودی کرب کا تخلیقی بیان ہے۔

انیس ناگی کی ایک اور اہم تخلیق جنس اور وجود ہے۔ انیس ناگی نے ان آٹھ مضامین میں عورت کے حوالے سے ایسے موضاعات پر قلم اٹھایا ہے جن سے ہمارا اکثر بلا یا بالواسطہ سامنا ہوتا ہے اور جن سے بوجوہ صرف نظر میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔ انیس ناگی کی ان تحریروں سے احساس ہوتا ہے کہ بہت توجہ اور سنجیدگی سے لکھی گئی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے موضوعات پر کھلے اظہار کے یے ایک جراتِ رندانہ درکار ہے جو شاید مصلحتاً کم کم پائی جاتی ہے۔ انیس ناگی نے پاکستانی عورت کی جنسیات کو سمجھنے کے لیے کسی حد تک کلینکل انداز اختیار کیا ہے لیکن کہنے کی طرح اعدادو شمار کی بھرمار سے گریز کیا ہے۔ اپنے عمیق مطالعے اور زندگی کے معاملات کی گہری بصیرت کی وجہ سے انیس ناگی کے یہ مضامین اپنے میدان میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے وسیلے سے پاکستانی عورت کو سمجھا جاسکتا ہے اس اعتبار سے جنس اور جود اردو میں پہلی کتاب ہے جس میں پاکستان کی تمدنی حالت میں پاکستانی عورت کا وجودی مطالعہ کیا گيا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ کتاب سے وابستگی کا ایسا عاشق کم پیدا ہوا ہو گا۔ ناول، شاعری، تنقید اور دستاویزی فلم، غرض کسی گھر بند نہیں۔ ترجمے پر اترے تو اردو دنیا کو سینٹ جان پرس، کامیو اور پابلو نرودا سے متعارف کرایا۔ اس پر بھی بیان مزید وسعت کا تقاضا کرے تو اپنا رسالہ نکال لیتے ہیں۔ چوٹ کرنے سے گھبراتے ہیں نہ چوٹ کھا کر بد مزہ ہوتے ہیں۔

انیس ناگی نے تنقید میں بھی کام کیا اور نظمیں بھی لکھیں۔ ان کے ہاں مکروہ، ممنوع اور نامانوس الفاظ بکثرت نظر آتے ہیں۔ ان کی نظم میں انتشار، بے سمتی اور ابہام سے پر تصورات موجود ہیں۔ انیس کی نظم کا فرد بے سمتی کا شکار ہے۔

تصانیف
نیس ناگی کی شاعری اور نثر کی پچاس سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں چند قابل ذکر یہ ہیں :

ابھی کچھ اور
ایک گرم موسم کی کہانی
آگ ہی آگ
بشارت کی رات
بیابانی کا دن
بیگانگی کی نظمیں
بے خوابی کی نظمیں
بے خیالی میں
نوحے
روشنیاں
زرد آسمان
غیر ممنوعہ نظمیں
صداؤں کا جہاں
زوال
ایک لمحہ سو چ کا
چوہوں کی کہانی
درخت مرے وجود کا
دیوار کے پیچھے
کیمپ
گردش
محاصرہ
میں اور وہ
سکریپ بک
قلعہ
ناراض عورتیں
ایک ادھوری سرگزشت
جنس اور وجود
وفات
انیس ناگی 7 اکتوبر، 2010ء کو لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری میں دوپہر کے وقت کتابوں کے مطالعے کے دوران میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور وہ علامہ اقبال ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔