انیس کیفیؔ یومِ ولادت 09؍ستمبر

*کالم نگار و نثر نگار، معلم اور بھارت کے معروف شاعر” انیس کیفیؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…*

نام *قاضی محمّد انیس* اور تخلص *کیفیؔ* ہے ۔ وہ *9؍ستمبر 1965ء* کو *راویر ضلع جلگاؤں، مہاراشٹر ( بھارت)* میں *قاضی وصی الدین* کے یہاں پیدا ہوئے۔ مقامی اسکول سے تعلیم حاصل کی اور بے ۔ اے اور ڈی ۔ ایڈ مکمل کیا اور جلگاؤں میں ہی درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ شعر و ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں استاد شاعر قیوم رازؔ سے شرف تلمذ حاصل کیے اور تقریباً 1998ء سے شعر کہنے لگے ۔
*انیس کیفیؔ*، آکاش وانی جلگاؤں اور مختلف موقر اخبارات و رسائل، باالخصوص بچّوں کا ادب اور غزلیات، ایوانِ اردو، خاتونِ مشرق، پاکیزہ آنچل، نور، ھلال، گلشنِ اطفال، پیامِ تعلیم، شگوفہ، امنگ، گل بوٹے، گلدستہِ تعلیم وغیرہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہیں۔ کائناتِ ادب میں نثری کالم نگار کی حیثیت سے منفرد شناخت بنائی۔ ان کے خانوادے میں کئی شعرا، ادبا و مفتیان کرام اور سیاسی بصیرت سے آراستہ نفوس موجود ہیں۔
مجموعہ کلام : *نغمۂ گُل* ( بچوں کے ادب پر)،
*طاقِ ادراک، رقصِ تخیل* اور *نوکِ قلم* ( مجموعہ غزلیات) زیرِ طباعت ہیں ۔

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

🌹🎊 *معروف شاعر انیس کیفیؔ صاحب کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین…* 🎊🌹

ان کا شیوہ بد زبانی اور بس
اپنی فطرت گلفشانی اور بس

شجرۂ اخلاص مثلِ ماہتاب
“لوگ ہیں ہم خاندانی اور بس”

میں ہوں دہقاں بجریوں کے دشت کا
آبلوں کی باغبانی اور بس

عالمِ کربِ جدائی کیا کہیں
چشمِ حسرت پانی پانی اور بس

گاؤں کی بیٹی حیا “کی پاسدار
ہے چنریا سر پہ دھانی اور بس

قصرِ دل میں وہ جو ہے مسند نشیں
رنگ اس کا زعفرانی اور بس

ہائے اس دنیا کی دو آنکھیں عجب
ایک بھینگی ایک کانی اور بس

کوئی پوچھے ہے لہو کا رنگ کیا
میں کہوں گا ارغوانی اور بس

کیفیؔ دنیا فانی فانی اور بس
مہکی عقبٰی جاودانی اور بس

❀◐┉══════════┉◐❀

*اس روحِ پریشان میں احساسِ جری ہے*
*سوزش ہے جگر میں کہیں پلکوں پہ نمی ہے*

*تسکین بکف دور تلک سرد ہوائیں*
*”آجا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے”*

*جوگن کوئی ٹھہری ہوئی ہے دیرِ مغاں میں*
*آوازِ جرس سینۂ صحرا میں سُنی ہے*

*وہ جو کہ ہے آئینہ زمانے کی نظر میں*
*افسوس اسی رُخ پہ بہت گرد جمی ہے*

*ہر سمت نظر آتی ہیں دھوپ آسا فضائیں*
*اس شہرِ نگاراں میں بہاروں کی کمی ہے*

*فکروں کے شجر پر گل احمر کی قبائیں*
*صحرائے جگر میں کہیں احساسِ نمی ہے*

*ہیں دور تلک خشک تمنّاؤں کے دریا*
*تا حدّ نظر گرچہ سرابوں میں تری ہے*

*خورشید نے فرقت کی ردا اوڑھ لی جب سے*
*تاروں کی چمک ماند ہے چندا بھی دکھی ہے*

*ایمان کی کشتی میں بھنور رنگِ جہاں کا*
*اے کیفی بتا یہ بھی کوئی رازِ خودی ہے*

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🌹✨ *انیس کیفیؔ*✨🌹

*انتخــــــــــاب : اعجاز زیڈ ایچ*