آل احمد سرورؔ

09؍ستمبر1911

*جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں شامل اور معروف شاعر” آل احمد سرورؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…*

*آل احمد سرور، ٩؍ستمبر ١٩١١ء* کو *بدایوں* کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1928 میں ہائی اسکول پاس کیا۔ اس کے بعد سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی۔ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا۔ 1936 میں علی گڑھ ہی سے اردو میں بھی ایم اے کیا۔ 1938 میں شعبۂ اردو میں لکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1955 میں پھر علی گڑھ آگئے اور رشید احمد صدیقی کے بعد شعبے کے صدر رہے۔
لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران سرور ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے اور انجمن کے جلسوں میں شریک ہونے لگے لیکن وہ کبھی بھی ترقی پسند نظریاتی جبر کا شکار نہیں ہوئے ۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علمبردار رہی ، وہ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کی مخالفت کرتے رہے لیکن ادب کے اس ہنگامی اور انقلابی تصور کے خلاف رہے جس کا پرچار اس وقت میں جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔ سرور نے مغربی اور مشرقی ادب کے گہرے مطالعے کے بعد اپنی تنقید نگاری کے لئے ایک الگ ہی انداز دریافت کیا۔ اس میں مغربی تنقیدی اصولوں سے استفادہ بھی ہے اور مشرقی اقدار کا رچاو بھی۔
تنقید نگار کے ساتھ ایک شاعر کے طور پر بھی سرور منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاو اور جدید احساس کی تازہ کاری ملتی ہے۔ سرور کی تنقید اور شاعری کی متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔ کچھ کے نام یہ ہیں۔
’نئے اور پرانے نظریے‘ ’تنقید کیاہے‘ ’ادب اور نظریہ‘ ’مسرت سے بصیرت تک‘ ’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوق جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت)۔
*٩؍فروری ٢٠٠٢ء* ، کو *دہلی* میں انتقال کر گئے۔

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

🌸🎊 *معروف شاعر آل احمد سرورؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور اظہارِ عقیدت…* 🎊🌸

آج پی کر بھی وہی تشنہ لبی ہے ساقی
لطف میں تیرے کہیں کوئی کمی ہے ساقی

ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے

تمہاری مصلحت اچھی کہ اپنا یہ جنوں بہتر
سنبھل کر گرنے والو ہم تو گر گر کر سنبھلے ہیں

حسن کافر تھا ادا قاتل تھی باتیں سحر تھیں
اور تو سب کچھ تھا لیکن رسمِ دل داری نہ تھی

آتی ہے دھار ان کے کرم سے شعور میں
دشمن ملے ہیں دوست سے بہتر کبھی کبھی

مے کشی کے بھی کچھ آداب برتنا سیکھو
ہاتھ میں اپنے اگر جام لیا ہے تم نے

کچھ تو ہے ویسے ہی رنگیں لب و رخسار کی بات
اور کچھ خونِ جگر ہم بھی ملا دیتے ہیں

جو ترے در سے اٹھا پھر وہ کہیں کا نہ رہا
اس کی قسمت میں رہی در بدری کہتے ہیں

ہم تو کہتے تھے زمانہ ہی نہیں جوہر شناس
غور سے دیکھا تو اپنے میں کمی پائی گئی

لوگ مانگے کے اجالے سے ہیں ایسے مرعوب
روشنی اپنے چراغوں کی بری لگتی ہے

یہ کیا غضب ہے جو کل تک ستم رسیدہ تھے
ستم گروں میں اب ان کا بھی نام آیا ہے

بستیاں کچھ ہوئیں ویران تو ماتم کیسا
کچھ خرابے بھی تو آباد ہوا کرتے ہیں

وہ تبسّم ہے کہ غالبؔ کی طرح دارِ غزل
دیر تک اس کی بلاغت کو پڑھا کرتے ہیں

تمام عمر کٹی اس کی جستجو کرتے
بڑے دنوں میں یہ طرزِ کلام آیا ہے

اب دھنک کے رنگ بھی ان کو بھلے لگتے نہیں
مست سارے شہر والے خون کی ہولی میں تھے

ابھی آتے نہیں اس رند کو آدابِ مے خانہ
جو اپنی تشنگی کو فیضِ ساقی کی کمی سمجھے

جہاں میں ہو گئی نا حق تری جفا بد نام
کچھ اہلِ شوق کو دار و رسن سے پیار بھی ہے

ہستی کے بھیانک نظارے ساتھ اپنے چلے ہیں دنیا سے
یہ خوابِ پریشاں اور ہم کو تا صبحِ قیامت سونا ہے

آج سے پہلے ترے مستوں کی یہ خواری نہ تھی
مے بڑی افراط سے تھی پھر بھی سرشاری نہ تھی

ہمارے ہاتھ میں جب کوئی جام آیا ہے
تو لب پہ کتنے ہی پیاسوں کا نام آیا ہے

دل کی جو بات تھی وہ رہی دل میں اے سرورؔ
کھولے ہیں گرچہ شوق کے دفتر کبھی کبھی

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🌹 *آل احمد سرورؔ*🌹

*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*