سرشارؔ صدیقی وفات 7 ستمبر

07؍ستمبر 2014

*اردو دنیا کے اہم نامور صاحبِ اسلوب اور ممتاز شاعر” سرشارؔ صدیقی صاحب “ کا یومِ وفات…*

*نام *اسرار حسین محمد امان* اور تخلص *سرشار صدیقی*
*25؍دسمبر 1926ء* کو *کانپور اتر پردیش ہندوستان* میں پیدا ہوئے۔
سرشار صدیقی پاکستان کے ایک نامور شاعر اور دانشور کے طور پر جانے جاتے ہیں جنھوں نے اپنے انوکھے انداز کے اشعار کی شناخت کی جس کی وجہ سے ان کا شمار پاکستان کے بہترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے میٹرک مکمل کرنے کے بعد حلیم مسلم کالج کانپور سے انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔
اولاد حسین سرشار صدیقی کے والد تھے کیوں کہ ان کے والد حکیم تھے اور دہلی کے طبیہ کالج میں استاد کے عہدے پر فائز تھے۔ سرشار صدیقی کا تعلق ضلع انناؤ کا علاقہ معظم آباد سے تھا۔ انہوں نے 1955-1984 میں نیشنل بینک آف پاکستان میں بھی کام کیا ہے جب وہ 1949 میں پاکستان ہجرت کر رہے تھے۔ وہ ایکسپریس اور جنگ اخبارات کے تخلیقی کالم نگار کے طور پر بھی جانا جاتا تھا لیجنڈ شاعر سرشار صدیقی نے نگار میں اپنی پہلی غزل لکھی جو سن 1949ء میں شائع ہوئی تھی کیونکہ ان کی پہلی کتاب سال 1947ء میں شائع ہو چکی تھی۔ پھر انہوں نے سن 1962ء میں ایک اور کتاب *پتھر کی لیکر* شائع کی ، اور ان کی آخری شاعری کی کتاب *خزاں کی آخری شام* تھی جو 1988ء میں شائع ہوئی –
*٧؍ستمبر ٢٠١٤ء* کو ٨٨ سال کی عمر میں کراچی میں پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئے۔

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

💐 *ممتاز شاعر سرشارؔ صدیقی کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…* 💐

صحرا ہی غنیمت ہے، جو گھر جاؤگے لوگو
وہ عالمِ وحشت ہے کہ مر جاؤگے لوگو

یادوں کے تعاقب میں اگر جاؤگے لوگو
میری ہی طرح تم بھی بِکھرجاؤگے لوگو

وہ موجِ صبا بھی ہو تو ہشیار ہی رہنا
سُوکھے ہُوئے پتّے ہو بِکھر جاؤگے لوگو

اِس خاک پہ موسم تو گُزرتے ہی رہے ہیں
موسم ہی تو ہو تم بھی گزرجاؤگے لوگو

اُجڑے ہیں کئی شہر، تو یہ شہر بَسا ہے
یہ شہر بھی چھوڑا تو کدھر جاؤگے لوگو

حالات نے چہروں پہ بہت ظلم کئے ہیں
آئینہ اگر دیکھا تو ڈر جاؤگے لوگو

اِس پر نہ قدم رکھنا کہ یہ راہِ وفا ہے
سرشار نہیں ہو، کہ گزر جاؤگے لوگو

❀◐┉══════════┉◐❀

کیا ہوا ہم پہ جو اس بزم میں الزام رہے
صاحب دل تو جہاں بھی رہے بدنام رہے

کوئی تقریب تو ہو دل کے بہلنے کے لئے
تو نہیں ہے تو ترا ذکر ترا نام رہے

ہم کو تو راس ہی آئی کسی کمسن کی وفا
ہائے وہ لوگ محبت میں جو ناکام رہے

اس ارادے سے اٹھایا ہے چھلکتا ہوا جام
ہم رہیں آج کہ یہ گردش ایام رہے

بے سبب کوئی نوازش نہیں کرتا سرشار
دیکھیں کیا ان کی عنایات کا انجام رہے

❀◐┉═════ ✺✺═════┉◐❀

عشق تک اپنی دسترس بھی نہیں
اور دل مائل ہوس بھی نہیں

اب کہاں جائیں گے خراب بہار
آشیاں بھی نہیں قفس بھی نہیں

برق کی بیکسی کو روتا ہوں
اب نشیمن میں خار و خس بھی نہیں

کس نے دیکھا شگفتگی کا مآل
زندگی اتنی دور رس بھی نہیں

ہم اسیروں کے واسطے سرشار
رسم پابندیِ قفس بھی نہیں

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🔲 *سرشار صدیقی*🔲

*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*