راہیؔ معصوم رضا یومِ ولادت یکم؍ستمبر

یکم؍ستمبر 1927*

*معروف ہندی ناول نگار اور فلم مکالمہ نگار ، ٹی وی سیریل ’ مہا بھارت‘ کے مکالموں کے لئے مشہور شاعر ”راہیؔ معصوم رضا“ کا یومِ ولادت…*

*راہیؔ معصوم رضا، یکم؍ستمبر 1927ء* کو اترپردیش کے *ضلع غازی پور* میں واقع *گنگولی گاؤں* میں پیدا ہوئے۔ رضا نے ابتدائی تعلیم غازی پور اور آس پاس کی تعلیم مکمل کی اور پھر اعلی تعلیم مکمل کرنے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلا گیا۔ انہوں نے ہندوستانی ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور ادب میں کیریئر کو آگے بڑھایا۔ بعد میں وہ بمبئی منتقل ہوگئے اور ایک کامیاب اسکرین پلے مصنف بن گئے اور 300 سے زائد فلموں کے اسکرین پلے اور مکالمے بھی لکھے جن میں ایک ٹی وی سیریل مہابھارت بھی شامل ہے۔ رضا کے متعدد کاموں میں تقسیم ہند کے نتائج کے اذیت اور ہنگاموں کو پوری دنیا میں دکھایا گیا ہے۔ وہ جاگیردار ہندوستان میں زندگی اور عام لوگوں کی عام خوشی ، محبت ، درد ، اور غم کی تصویر کشی بھی کرتے ہیں۔ ان کی کچھ اہم کاموں میں آدھا گاؤں (ناول) ٹوپی شکلا (ناول) اوس کی بوند (ناول) نیم کا پیڑ (ناول اور ٹی وی سیریل) میں تلسی تیرے آنگن کی (اسکرپٹ رائٹنگ) مہا بھارت (ٹی وی سیریل) شامل ہیں۔ انہوں نے 1979 میں فلم میں تلسی تیرے آنگن کی کے لئے فلم فیئر کا بہترین ایوارڈ بھی جیتا تھا۔ ان کا انتقال ممبئی میں *15؍مارچ 1992ء* کو *ممبئی* میں ہوا۔

🌹✨ *پیشکش : ~اعجاز زیڈ ایچ~*

🌸🎊 *معروف شاعر راہیؔ معصوم رضا کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…* 🎊🌸

جن سے ہم چھوٹ گئے اب وہ جہاں کیسے ہیں
شاخ گل کیسی ہے خوشبو کے مکاں کیسے ہیں

اے صبا تو تو ادھر ہی سے گزرتی ہوگی
اس گلی میں مرے پیروں کے نشاں کیسے ہیں

پتھروں والے وہ انسان وہ بے حس در و بام
وہ مکیں کیسے ہیں شیشے کے مکاں کیسے ہیں

کہیں شبنم کے شگوفے کہیں انگاروں کے پھول
آ کے دیکھو مری یادوں کے جہاں کیسے ہیں

کوئی زنجیر نہیں لائق اظہار جنوں
اب وہ زندانئ انداز بیاں کیسے ہیں

لے کے گھر سے جو نکلتے تھے جنوں کی مشعل
اس زمانہ میں وہ صاحب نظراں کیسے ہیں

یاد جن کی ہمیں جینے بھی نہ دے گی راہیؔ
دشمن جاں وہ مسیحا نفساں کیسے ہیں

❀◐┉══════════┉◐❀

لوگ یک رنگئی وحشت سے بھی اکتائے ہیں
ہم بیاباں سے یہی ایک خبر لائے ہیں

پیاس بنیاد ہے جینے کی بجھا لیں کیسے
ہم نے یہ خواب نہ دیکھے ہیں نہ دکھلائے ہیں

ہم تھکے ہارے ہیں اے عزم سفر ہم کو سنبھال
کہیں سایہ جو نظر آیا ہے گھبرائے ہیں

زندگی ڈھونڈھ لے تو بھی کسی دیوانے کو
اس کے گیسو تو مرے پیار نے سلجھائے ہیں

یاد جس چیز کو کہتے ہیں وہ پرچھائیں ہے
اور سائے بھی کسی شخص کے ہاتھ آئے ہیں

ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں
ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں

اس بیابان در و بام میں کیا رکھا ہے
ہم ہی دیوانے ہیں صحرا سے چلے آئے ہیں

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🍁 *راہیؔ معصوم رضا*🍁

*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*