لوئس ماؤنٹ بیٹن وفات27 اگست

لوئس ماؤنٹ بیٹن المعروف لارڈ ماؤنٹ بیٹن برطانوی سیاست دان،برطانوی بحری فوج کا افسر اورمتحدہ ہندوستان کا آخری جبکہ آزاد بھارت کا پہلا گورنر جنرل

ہندوستان کا آخری وائسرائے بننے سے قبل موصوف کی وجہ شہرت یہ تھی کہ دوسری عالمگیر جنگ کے آخری لمحات میں انہیں برطانوی بحریہ کی جنوب مشرقی ایشیا کی کمان کا سپریم الائیڈ کمانڈر بنا دیا گیا۔

انہوں نے اس شان سے جنگ لڑی کہ ان کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ ڈکوٹا جہاز کے اندر نفیس سفید چمڑے کی پیڈنگ کروائی گئی اور اس کے اندر آرام دہ صوفے نصب کیے گئے جو کھل کر پلنگ بن جاتے تھے۔ جہاز کی الماریاں اعلیٰ کاک ٹیل کی بوتلوں سے رچی ہوئی تھیں اور ماؤنٹ بیٹن نے اپنے لیے حجام بھی لندن سے منگوا رکھا تھا۔

اگر یہ پڑھ کر آپ کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ یہ شخص دنیا بھر میں لڑی جانے والی ہولناک ترین جنگ کا سپہ سالار ہے یا کوئی عیاش شہزادہ، تو آپ کا خیال درست ہو گا۔ ماؤنٹ بیٹن سچی مچی والے شہزادے تھے اس وقت کے برطانوی شہنشاہ جارج ششم کے کزن تھے

ہم یہ الزام تو نہیں لگانا چاہتے کہ اس قدر اہم اور نازک عہدے پر ان کی تقرری شاہی خاندان سے تعلق کی بنا پر ہوئی، البتہ جب ہم ان کا جنگی ریکارڈ دیکھتے ہیں تو کچھ کچھ شبہ سا ضرور ہونے لگتا ہے۔

مثال کے طور پر ملاحظہ ہو کہ سپریم کمانڈر کے عہدے پر تعیناتی سے پہلے ماؤنٹ بیٹن نے اپنے جنگی جہاز ایچ ایم ایس کیلی خود برطانیہ کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں میں چلوا دیا تھا۔ ایک اور واقعے میں انہوں نے اتحادی فوج کے چھ ہزار سے زائد سپاہیوں کو فرانس میں آپریشن ڈیپ کے نام سے ایک ایسی ’کمانڈو ایکشن‘ مہم میں جھونک دیا جس میں آدھے سے زیادہ جرمنوں کا نشانہ بن گئے، بقیہ کو وہاں سے بدترین شکست کھا کر بھاگنا پڑا اور مہم کا ایک ہدف بھی حاصل نہ ہو سکا۔

تو یہی وہ شہزادہ ماؤنٹ بیٹن تھے جن کی ’ولولہ انگیز قیادت‘ کی ’تاب نہ لاتے ہوئے‘ جاپانیوں نے 15 اگست 1945 کو گھٹنے ٹیک دیے۔ یہ الگ بات کہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ جاپانیوں نے برطانوی بحریہ نہیں، بلکہ امریکا کے ایٹم بموں کے آگے سر جھکایا تھا۔

لیکن لارڈ صاحب نے یہ باریک نکتہ نظر انداز کرتے ہوئے نہ صرف اس فتح کا سہرا اٹھا کر اپنے ہاتھوں اپنے سر پر باندھا بلکہ اس دن کو بھی اپنے نام کر لیا اور جب ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے یہی تاریخ مقرر کی گئی

جب اعلان ہوا کہ ہندوستان 15 اگست کو آزاد ہو گا تو اس پر نہ صرف ملک بھر بلکہ برطانیہ تک میں کھلبلی مچ گئی کیوں کہ ماؤنٹ بیٹن نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے عملے، کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنماؤں، برطانوی وزیرِ اعظم ایٹلی تو کجا، اپنے کزن بادشاہ جارج سے بھی مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔

ہندوستانی رہنما تو پھر بھی خاموش ہو گئے کہ چلو انگریز سے جس قدر جلد جان چھوٹے اتنا ہی بہتر ہے، لیکن ہندو پنڈتوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 15 اگست کا دن جوتش کی رو سے منحوس ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندووں کی بڑی تعداد شبھ گھڑی کا زائچہ نکالے بغیر نہیں کوئی کام نہیں کرتی تو ملک کا وجود میں آنا کیسے برداشت کر لیتی؟ لیکن اڑچن یہ تھی کہ دوسری طرف ماؤنٹ بیٹن بھی 15 اگست سے ایک انچ ادھر ادھر ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔

آخر فیصلہ یہ ہوا کہ نہ ہماری نہ تمہاری، تقسیم 15 اگست ہی کو ہو لیکن اس کا اعلان رات کے 12 بجے کیا جائے، کیوں کہ ہندو کیلنڈر کے مطابق دن کا آغاز رات 12 بجے نہیں بلکہ سورج چڑھنے سے ہوتا ہے اور رات بھر پچھلی تاریخ میں گنی جاتی ہے۔

سو 15 اگست کو رات 12 بجے دنیا کے نقشے پر دو نئے ملک ابھرے، پاکستان اور بھارت، مگر اس انتشار، جلدبازی اور افراتفری سے کیے گئے انتقالِ اقتدار سے وہ خون خرابا ہوا جو 20ویں صدی جیسی خونی صدی کے دامن پر بھی داغ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس دوران پانچ ہیروشیم اور ناگاساکی پیش آئے اور دس لاکھ کے لگ بھگ لوگ مارے گئے۔

اسی دوران ایک کروڑ کے قریب لوگ بےگھر ہوئے جو اب تک انسانی تاریخ کا بدنما ریکارڈ ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ماؤنٹ بیٹن کو 15 اگست کو ہندوستان تقسیم کرنے کا خبط نہ ہوتا اور وہ اصل منصوبے کے مطابق 1948 کے وسط میں جا کر تھوڑی زیادہ منصوبہ بندی اور ٹھنڈے دل و دماغ سے ہندوستان کو آزاد کرتے تو شاید اتنی تباہی نہ مچتی۔

لیکن بعض لوگ ایک اور نظریہ پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک تقسیم کرنے کی تاریخ دس ماہ آگے کرنے کے فیصلے کے پیچھے ماؤنٹ بیٹن کی اہلیہ ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کا نہرو سے سکینڈل تھا اور وہ جلد از جلد یہ کام نمٹا کر واپس انگلستان لوٹنا چاہتے تھے۔

ہم نیچے چل کر اس سکینڈل کا تفصیل سے جائزہ لیں گے، اس سے پہلے اس بات کا جواب دینا ضروری ہے کہ اس قدر اتاولی، ہنگامہ خیز اور لاابالی شخصیت کے مالک ماؤنٹ بیٹن تھے کون؟

لوئس فرانسس ایلبرٹ وکٹر نکولس 25 جون 1900 کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ ملکہ وکٹوریہ کے نواسے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن کا نک نیم ’ڈکی!‘ ان کی نانی ملکہ وکٹوریہ ہی نے رکھا تھا۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان کا خاندانی نام ماؤنٹ بیٹن کیسے پڑا کیوں کہ جب وہ پیدا ہوئے تو ان کی شاہی خاندانی شاخ کا نام بیٹن برگ تھا، لیکن جرمنی کے خلاف لڑتے لڑتے انگریز عوام کے اندر جرمن دشمنوں کی لہر اتنی اونچی ہوئی کہ شاہی خاندان نے ہوا کا رخ بھانپتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ناموں کے جرمن حصے بدل دیے جائیں، چنانچہ بیٹن برگ بھی ماؤنٹ بیٹن ہو گئے۔ وجہ یہ کہ برگ جرمن میں ماؤنٹ یعنی پہاڑ ہی کو کہتے ہیں۔ گویا پہاڑ اپنی جگہ پر رہا، لفظ بدل گیا۔

نوجوان ماؤنٹ بیٹن نے رائل نیول کالج میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی پوسٹنگ 16 برس کی عمر میں ہوئی جب انہیں پہلی عالمگیر جنگ کے عین درمیان میں جنگی جہاز ایچ ایس لائن پر تعینات کیا گیا۔

جنگ تو جلد ہی ختم ہو گئی لیکن نوجوان شہزادے کو نت نئی ٹیکنالوجی کا شوق تھا اس لیے انہوں نے بحریہ میں رہتے ہوئے الیکٹرانکس کے نئے نئے متعارف ہونے والے شعبے کا علم حاصل کیا اور انسٹی ٹیوشن آف الیکٹریکل انجینیئرز کے رکن بن گئے۔

انہوں نے نیول انجینیئرنگ میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ جہاز رانی کی ایک ایجاد کے عوض انہیں ایک پیٹنٹ بھی مل گیا۔

اسی دوران یورپ دوسری عالمگیر جنگِ کے شعلوں میں گھر گیا اور ماؤنٹ بیٹن بحریہ کے افسر کی حیثیت سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے گئے، جن کا اختتام 15 اگست کو جاپان کے ہتھیار ڈالنے سے ہوا۔

ادھر تو یہ کچھ ہو رہا تھا، ادھر ہندوستان میں بھی شدید بےچینی چھائی تھی اور برطانوی راج کے ’تاج کا ہیرا‘ اس تاج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بےقرار تھا۔ اس وقت یہاں کے وائسرائے لارڈ ویول تھے، لیکن جب وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کے فارمولے پر رضامند کرنے میں ناکام رہے تو وزیرِ اعظم ایٹلی نے ماؤنٹ بیٹن کو یہ بھاری ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کر دیا۔

تقسیم کا کام جیسے تیسے نمٹانے کے بعد لارڈ صاحب کچھ عرصہ انڈیا کے گورنر جنرل رہے، پھر واپس انگلستان چلے گئے۔

وفات
ماؤنٹ بیٹن کو 27 اگست 1979ء میں آئرش علیحدگی پسندوں نے ایک حملے میں قتل کر دیا تھاجب وہ آئرلینڈ کے ساحلی علاقے میں اپنی کشتی پر مچھلی کے شکار کے لیے نکلے تھے۔اس وقت ان کی عمر 79 برس تھی۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی کشتی کو دھماکے سے اْڑایا گیا تھا، یہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ حملہ آوروں کا نشانہ ماؤنٹ بیٹن ہی تھے۔دھماکے میں ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کے کئی اور افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔برطانیہ کا شاہی خاندان آج بھی ماؤنٹ بیٹن اوران کی خدمات کو نہیں بھولا ،انہیں یاد رکھنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہزادہ ولیم کے ہاں پیدا ہونے والے تیسرے بچے کانام لوئس رکھا گیا ہے جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا اصل نام تھا۔ننھے شہزادے کا نام لوئس آرتھر چارلس ہے