جماعت اسلامی کے اسی(80) سال

آج سے ٹھیک اسی (80)سال پہلے لاہور میں 26 اگست 1941ء کو ایک منفرد جماعت کی بنیاد رکھی گئی ، جس کے آغاز میں 75 افراد نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی یرحمه اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے اللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نظم جماعت اسلامی سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔

یہ دوسری جنگ عظیم ( 1939ء تا 1945ء )کا زمانہ تھا۔ غیر منقسم ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔

چھ سال بعد ، اگست 1947ء میں بھارت کی تقسیم ہوئی۔ پاکستان وجود میں ایا۔
24 سال بعد پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا اور 1971 ء میں بنگلہ دیش وجود میں ایا۔ جماعت اسلامی کی تحریک تینوں ممالک کے علاوہ کئی دوسرے مقامات پر بھی منظم ہے۔

مولانا مودودی چونکہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے اور چونکہ انہی کی قیادت میں تحریک آگے بڑھتی رہی ، اس لیے دیگر ممالک کی جماعتوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی پاکستان کو ہی کلیدی حیثیت حاصل رہی۔

مولانا مودودی نے 1923ء سے 1941ء تک 18 سالوں میں مغرب و مشرق کو چیلنج کرتے ہوئے ایسے قیمتی مضامین لکھے ، جس پر وہ ساری امت مسلمہ کی طرف سے دعاؤں کے حقدار ہیں۔ یہی تحریریں جماعت اسلامی کے قیام کا باعث بنیں۔ جماعت کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ہر مکتب فکر کے علماء بھی شامل ہوئے اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی۔

جماعت اسلامی کے گزشتہ اسی (80)سالوں کو مندرجہ ذیل ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1- پہلا دور:
1941ء سے 1947ء (آزادی) تک کا چھ (6) سالہ دور۔

2- دوسرا دور:
1947ء سے ( اجتماع ماچھی گوٹھ) 1957ء تک کا دس(10) سالہ دور ، جس میں پاکستان میں جماعت کا آئیندہ لائحہ ء عمل طے کیا گیا۔

بنیادی طور پر گزشتہ 64 سالوں ( 1957 تا 2021 ء ) سے اسی حکمت عملی پر جماعت عمل پیرا ہے۔

1957 میں مولانا نے بجا طور پر کہا تھا کہ پاکستان کے نئے حالات کی روشنی میں ، ہم اپنا لائحہ ء عمل تبدیل کر رہے ہیں۔ لیکن اب نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔ کوئی سیاسی مجتھد نہیں ، جو نئے حالات کے لیے نئی فکر ، نئی حکمت عملی اور نیا لائحہ ء عمل دے۔ لکیروں کی فقیری ہے ، جو تھوڑا بہت حلیہ بدل کر در بدر ہو رہی ہے۔
اسی دور میں غلام محمد نے غیر آئینی طریقے سے اقدار سنبھالا۔

3- تیسرا دور :
1957 ء سے 1970ء کا 13 سالہ دور، جب تک مولانا مودودی خود امیر رہے۔ اسی عرصے میں ایوب خان نے مار lookشل لا نافذ کیا ۔
فوجی امر ایوب خان 1958 سے 1969ء تک برسر اقتدار رہے۔

4- چوتھا دور :
1970ء سے ( وفات جنرل ضیاء الحق) 1988ء تک کا 18 سالہ دور۔ اس عرصے میں میاں طفیل محمد صاحب 15 سال تک امیر رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ضیائی فوجی دور 11 سالوں پر محیط رہا۔ ( 1977ء تا 1988ء)

5- پانچواں دور :
1988ء سے آج تک یعنی2021ء تک کا 33 سالہ دور ، جس میں جماعت اسلامی پاکستان نے نت نئے تجربے کیے۔
آئی جے آئی بنی۔
پاکستان اسلامک فرنٹ بنا۔
1997ء کے الکشن کا بائیکاٹ کیا۔
اسی عرصے میں فوج نے پھر اقتدار سنبھال لیا۔ جنرل مشرف 1999ء سے 2008ء تک 9 سال حکومت کرتے رہے۔

متحدہ مجلس عمل بنی ۔
2002 ء کے الکشن کے بعد سرحد کی حکومت میں شامل ہوئے۔
2008ء میں پھر الکشن کا بائیکاٹ کیا۔
2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں ناکام رہی۔
ایمانداری کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی مثالی تحریک مسلسل انحطاط کا شکار ہے۔
یہ انحطاط فکری بھی ہے ، ذہنی بھی ہے ، سیاسی بھی ہے ، اخلاقی بھی ہے ، علمی بھی ہے ، تصنیفی بھی ہے، عملی بھی ہے ، اور روحانی بھی۔
اس انحطاط کے باوجود اس جماعت اور تحریک کو آج بھی صاحب کردار مخلص ، بے لوث کارکن میسر ہیں۔ جماعت اسلامی مسلکی ، قومی ، علاقائی ، لسانی تعصبات اور برادری کی سیاست سے بہت پاک ہے۔
علاوہ ازیں الخدمت کے نام سے جماعت اسلامی کے فلاحی کام ، آج اسی سال بعد پہلے سے زیادہ مفید اور موثر ہیں۔

جماعت اسلامی کو ایک نئی روح اور نئی زندگی کی ضرورت ہے۔ 1957ء کے 64 سالہ پرانے لائحہ عمل میں تبدیلی کی شدید ضرورت ہے۔

میری ناقص لیکن پختہ رائے گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے یہی ہے کہ جماعت کو اب ضمانتیں ضبط کرانے کے لیے انتخابی سیاست میں پچاس فی صد (50%) سے کہیں زیادہ وسائل صرف نہیں کرنا چاہیے۔ یہ نا کام سیاست دانوں کی تا مرگ خواہش
ہو سکتی ہے , لیکن اس میں تحریک کا مفاد ہرگز نہیں۔
جماعت کو چاہیے کہ اپنے پچاس فی صد (50%) سے زیادہ وسائل 13-14 سال سے لے کر 25 سال کے نوجوانوں کی ہر ضلع میں تعلیم اور تربیت پر خرچ کرے۔ اپنی بنیاد کو مضبوط کرے۔ جماعت کو اب اسلامی جمعیت طلبہ قیادت فراہم کرنے لگی ہے ۔ علماء کے لیے زیادہ کشش نہیں۔ جمعیت طلبہ کی علمی اور فکری اخلاقی اور روحانی پختگی ، جماعت کی پختگی کا سبب بنے گی۔ اور ٹھیک اسی طرح جمعیت طلبہ کا انحطاط ، جماعت کا مزید انحطاط ہوگا۔

علمی انحطاط کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ استدلالی مزاج رکھنے والے بہت جلد مائل بہ اعتزال ہوکر ‘ غامدیت’ وغیرہ کی طرف لپکتے ہیں۔

روحانی انحطاط کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ ‘ نبوی روحانیت’ کو ترک کرکے پیری مریدی اختیار کرلیتے ہیں اور تصوف زدہ ہوجاتے ہیں۔
نہ نبوی نماز نہ نبوی اذکار کا اہتمام۔ اگر صوفی فلسفی ہو تو نور علی نور۔ کارکن وحدة الوجود اور میٹا فزکس میں الجھ جاتا ہے۔

سیاسی مزاج والے کھوکھلے موقع پرست پی ٹی آئی اور عمران خان کی طرف للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
دینی تفقہ سے محروم لوگ کرسمس کیک کاٹتے ہیں ، یا پھر محرم کی سبیل بانٹنے لگتے ہیں۔
شیرازہ یوں ہی بکھرتا ہے۔

اس انحطاط قیادت کا مقابلہ کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ نئی قیادت کی تعمیر کی جائے۔ 100 ذہین نوجوانوں کو پورے پاکستان سے منتخب کرکے انہیں دس سال تک وظیفے دیے جائیں ، انہیں عربی اور انگریزی دونوں زبانوں پر عبور حاصل کرنے کے لیے وسائل خرچ کیے جائیں۔ جدید و قدیم علوم سے آشنا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ تحریک کو اجتہادی شان رکھنے والی قیادت عطا کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔

لائحہ عمل کی تبدیلی نا گزیر ہے۔

کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد

خلیل الرحمٰن چشتی
26 اگست 2021 ء
17 محرم 1443ھ
اسلام آباد