قرۃ العین یوم وفات 21 اگست

🌹 👇 آج اردو ادب کی ممتاز ناول نگار اور افسانہ نگار اور معروف نثر نگار محترمہ قرۃ العین صاحبہ کا 14 واں یوم وفات ہے 🌹👇

تاریخ ولادت : 20 جنوری 1926ء علی گڑھ انڈیا
تاریخ وفات : 21 اگست 2007ء نویڈہ (دہلی) انڈیا

قرۃ العین حیدر بھارت میں مقیم اردو ادب کی معروف خاتون ناول نگار اور افسانہ نگار تھیں اردو کے افسانہ نگاروں اور ناول میں قرۃ العین حیدر کا مقام بہت بلند ہے وہ مشہور انشا پرداز سید سجاد حیدر بلدرم کی صاحبزادی ہیں ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں، 11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃالعین حیدر کو اردو ادب کی ’ورجینا وولف‘ کہا جاتا ہے انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں ’سٹریم آف کونشیئسنس‘ تکنیک کا استعمال کیا تھا اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے
قراۃ العین حیدر کی پیدائش 20 جنوری 1926ء کو اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئی ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم ، جن کا شمار اردو کے مشہور کہانی نویسوں میں ہوتا تھا یوپی کے ایک ایسے پڑھے لکھے زمیندار زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جن کے افراد خاندان دربار مغلیہ میں سہ ہزاری پنج ہزاری اور منصب دار وغیرہ رہے تھے ان کی عمر صرف 14 برس تھی, وہ نذر سجاد حیدر کے نام سے لکھنے لگیں انھوں نے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا اور کئی اسلامی ممالک کی سیاحت کی ، قرۃ العین حیدر کی ابتدائی زندگی پورٹ بلئیر جزائر انڈیمان میں گزری اور ابتدائی تعلیم انھوں نے دہرہ دون میں حاصل کی بچپن کا زمانہ جزائر انڈمان میں گزارا جہاں ان کے والد ریونیو کمشنر تھے اس کے بعد ڈیرہ دون کانونٹ میں تعلیم حاصل کی پھر وہ لکنؤ کے مشہور ازبیلی تھوبرن کالج میں داخل ہوئیں اور وہاں سے بی اے کیا اس کے بعد وہ لکھنؤ یونیورسٹی میں داخل ہوئیں اور وہاں سے 1947ء میں انفریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اس کے علاوہ انھوں نے گورنمنٹ اسکول آف آرٹس لکھنؤ اور ہیڈ میز سکول آف آرٹس لندن میں تعلیم پائی تقریباً اسی زمانے میں افسانہ نویسی کا آغاز کیا ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ تھا، جسے جدید افسانہ کا نقطہ ٔ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے قرۃ العین حیدر نے پہلی کہانی صرف چھ برس کی عمر میں لکھی تھی تاہم ان کی یہ کہانی کہیں شائع نہیں ہوئی ان کی پہلی تخلیق ” بی چوہیا” کی کہانی بچوں کے اخبار پھول لاہور میں اشاعت پذیر ہوئی جبکہ ان کی عمر تہرہ برس تھیں پانچ سال بعد ان کی کہانی ” یہ باتیں” لاہور کے مشہور رسالے ہمایوں (1942) میں شائع ہوئی قرۃ العین حیدر نے پہلی ملازمت محکمہ فلم اور پبلیکیشنز میں کی پہلا افسانہ بچوں کے رسالے پھول لاھور میں 1938ء میں شائع ھوا آپ پاکستان رائیٹرز گلڈ حلقہ کراچی کی رکن بھی رھیں 11 اپریل 1943ء کو ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم کی لکھنؤ میں وفات ہو گئی وہ اپنی ابتدائی کہانیوں میں انگریزی کا استعمال کثرت سے کرتی تھیں لٰہذا ایک خاتون نے ان کی کہانی کا سرسری مطالعہ کرتے ہوۓ کہا تھا آپ انگریزی بہت اچھا لکھتی ہیں اسی طرح میرے بھی صنم خانے ہیں ، پر مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے تبصرہ کیا تھا کہ اس کتاب میں سواۓ پارٹیوں کے تذکرے کے اور کچھ نہیں تقسیم ہند کے بعد قرۃالعین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا لیکن بعد میں انہوں نے ہندوستان آ کر رہنے کا فیصلہ کیا تقسیم پاکستان 1947ءمیں وہ پاکستان چلی گئی جہاں وہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات و فلم سے وابستہ ہو گئیں وہ کچھ مدت پاکستان میں سکونت پذیر رہیں 1950ءمیں وہ پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات میں انفارمیشن آفیسر مقرر ہوئیں اور لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں پریس اٹیچی کی حیثیت سے بھی تعینات رہیں وہ ڈاکومنٹری فلموں کے پروڈیسر کے علاوہ پاکستانی کوارٹرلی کے ایکٹنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتی رہیں کچھ دنوں انھوں نے پاکستان ائیر لائینز میں بھی کام کیا پاکستان میں ان کے کئی ناول شائع ہوئے جن میں میرے بھی صنم خانے، سفینہ ٔ غم دل اور آگ کا دریا قابل ذکر ہیں اسی اثنا میں ان کا شہرت یافتہ ناول ” آگ کا دریا” شائع ہوا جس پر پاکستان میں ایک بحث و تنزعہ شروع ہو گیا اور پھر چھٹۓ دہے کے ابتدائی برسوں میں وہ پاکستان سے مستقل طور پر ہندوستان آ گئیں ” آگ کا دریا” کی اشاعت پر پاکستانی پریس نے ان کے خلاف تناسخ کے عقیدے کے پرچار پر بڑی سخت مہم چلائی جس پر وہ واپس ہندوستان چلی آئی ہندوستان آنے کے بعد ان کے کئی افسانےمجموعے، ناولٹ اور ناول شائع ہوئے جن میں ’’ہائوسنگ سوسائٹی، پت جھڑ کی آواز، روشنی کی رفتار، گلگشت، ستیا ہرن ، چائے کے باغ، اگلے جنم موہے بٹیانہ کیجو، جہانِ دیگر، دلربا ، گردشِ رنگ چمن اورچاندنی بیگم قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ ان کا سوانحی ناول ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ بھی اشاعت پذیر ہو چکا ہے قرۃالعین حیدر نہ صرف ناول نگاری بلکہ اپنے افسانوں اور بعض مشہور تصانیف کے ترجموں کے لیے بھی جانی جاتی ہیں ان کے مشہور ناولوں میں’آگ کا دریا‘ ، ’آخرِ شب کے ہم سفر‘ ، ’ میرے بھی صنم خانے‘ ، ’چاندنی بیگم‘ اور ’کارِ جہاں دراز‘ شامل ہیں ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف دکھتا ہے اور ان کے دو ناولوں ’آگ کا دریا‘ اور ’آخر شب کے ہم سفر‘ کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے 1964ء 68ء کے دوران وہ امپرنٹ بمبئی کی کیرئیر ایڈیٹر رہیں 1968ء سے 1975ء کے دوران وہ مشہور انگریزی ہفتہ وار السٹرٹیڈ ویکلی آگ انڈیا کی مدیر معاون رہیں وہ سنٹرل بورڈ آف فلمز سے بھی منسلک رہیں 1967ء میں انھیں افسانوں کے مجموعے ” پت جھڑ کی آواز” پر ساہتیہ اکادمی میں ایوارڈ دیا گیا اور اسی برس 19 اکتوبر کو ان کی والدہ نذر سجاد حیدر کی طویل علالت کے بعد بمبئی میں وفات ہوئی 1969ء میں انھیں تراجم پر سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ عطا کیا گیا 1982ء 8$ میں وہ شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں وزیٹنگپروفیسر رہیں 1984ء میں پدم شری اور غالب ایوارڈ ملا 1989ء میں انہیں حکومت ہندوستان نے ’آخرِ شب کے ہم سفر‘ کے لیے ہندوستان کی سرکار نے سب سے بڑا باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ عطا کیا جو ہندوستان کا ایک بہت بڑا ادبی ایوارڈ ہے جو اس سے پیشتر اردو میں صرف مشہور اردو شاعر فراق گورکھپوری کو ہی عطا کیا گیا تھا جبکہ حکومت ہند نے ان کی ادبی خدمات پر انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات سے بھی سرفراز کیا قرۃالعین حیدر نے اپنے مرنے کی پیشین گوئی 19 اگست کی کی تھی 21 اگست 2007ء( ساڑھے تین بجے شب) دہلی کے نزدیک کیلاش ہسپتال نوئیڈا میں ان کا انتقال ہوا۔ نماز جنازہ ، بعد نمازِ عصر ، میدان ، جامع مسجد، جامیہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں ادا کیا گیا تدفین جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اس خاص قبرستان میں ہوئی جہاں علم و ادب کی عظیم شخصیات المرتبت شخصیات یعنی مختار احمد انصاری ، عابد حسین ، صالحہ عابد حسین ، غلام السیدین ، غلام الثقلین ، پروفیسر نور الحسن ، بیگم انیس قدوائی ، شفیق الرحمٰن قدوائی ، سجاد ظہیر ، رضیہ سجاد ظہیر وغیرہ دفن ہیں
🌹ترتیب و پیشکش 👈 سید نوید جعفری حیدرآباد دکن

#مطبوعات
افسانوں کے مجموعے 👇

1 ستاروں سے آگے ( 1947ء)
2 شیشے کے گھر ( مکتبہ جدید ، لاہور ، 1954ء)
3 پت جھڑ کی آواز ( مکتبہ جامعہ ، نئی دہلی ، 1967ء)
4 روشنی کی رفتار ( ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ ، 1982ء)
5 جگنوؤں کی دنیا ( انجمن ترقی اردو ہند ، 1990)

#ناول 👇
1 میرے بھی صنم خانے ( 1949ء)
2 سفینہ غم دل ( 1952ء)
3 آگ کا دریا ( 1959ء)
4 آخر شب کے ہمسفر ( 1971ء)
5 کارِ جہاں دراز ہے ( دو جلدوں میں ) ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۔ سنگ میل پبلیکشینز ، لاہور 1990ء
6 گردشِ رنگِ چمن ( ایجوکیشنل پبللشنگ ہاؤس دہلی 1988ء)
7 چاندنی بیگم ( ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 1989ء)

#ناولٹ 👇
چار ناولٹ (1989ء)
1 ۔ دلربا ۔ 2 ۔ سیتا ہرن ۔ 3 ۔ چاۓ کا باغ ۔ 4 ۔ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو

#رپورتاژ 👇
1 ستمبر کا چاند ، درچمن ہر ورقی دفتر حال و گزشت ( نقوش ، لاہور)
2 کوہ و دماند ( آج کل ، نئی دہلی)
3 گل گشت ( گفتگو ، بمبئی)
4 خضر سوچتا ہے ( بک بابی تمثیل ، جہانِ دیگر ، آج کل اردو)

#تراجم 👇
1 ہمیں چراغ ہمیں پروانے ( از ھنری جمیسن)
2 آپس کے گیت ( از واسل ہائی کوف)
3 ماں کی کھیتی ( از چنگیز اعتمادوف(
4 آدمی کا مقدر ( از میخائل شولوخوف)
5 کلیسا میں قتل ( از ٹٰ۔ ایس ۔ ایلیٹ)
6 تلاش ( از ٹرومین کایوٹ)
7 لیووکیہ

انھوں نے بچوں کے ادب کے متعلق بھی کام کیا ہے جن میں زیادہ تراجم ہیں ان میں سے چند یہ ہیں 👇
1 ۔ بہادر ۔ 2 ۔ لومڑی کے بچے ۔ 3 ۔ میاں ڈھینچوں کے بچے 4 ۔ حسن عبدالرحمٰن ۔ 5 ۔ بھیڑیے کے بچے
٭٭٭٭٭٭٭
قرۃالعین حیدر پر لکھے گئے #مقالات
مقالات پی ایچ ڈی !! 👇
== قرۃالعین حیدر کے ناولوں میں نسائی کردار، ڈاکٹر شمیم صادقہ نگران ڈاکٹر قریشہ حسین، پٹنہ یونیورسٹی. پٹنہ، 1980ء
== قرۃالعین حیدر اور ان کے کارنامے، ڈاکٹر اختر سلطانہ نگران ڈاکٹر ثمینہ شوکت، حیدرآباد یونیورسٹی. حیدرآباد، 1987ء
== اُردو ناول کی روایت اور قرۃالعین حیدر، ڈاکٹر زاہد انور خاں ، بھاگلپور یونیورسٹی . بھاگلپور، 1988ء
== اُردو ناول میں مسلم ثقافت : بحوالہ خصوصی عزیز احمد، قرۃالعین حیدر ،انتظار حسین،خدیجہ مستور، ڈاکٹر فاروق عثمان نگران ڈاکٹر اے بی اشرف، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی. ملتان 1999ء
== قرۃالعین حیدر کی افسانہ نگاری، ڈاکٹر سہیل بیابانی، نگران ڈاکٹر عصمت جاوید، با با صاحب ڈاکٹر امبیڈکر یونیورسٹی. اورنگ آباد
== قرۃالعین حیدر بحیثیت ناول نگار، ڈاکٹر ہربنس سبگھ تصور، نگران ڈاکٹر ہارون ایوب، پنجاب یونیورسٹی. چنڈی گڑھ
== قرۃالعین حیدر اور عبداللہ حسین کے ناولوں کا تقابلی مطالعہ، ڈاکٹر نوشاد عالم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی. علی گڑھ

#مقالات ایم فل !! 👇
== آزادی کے بعد قرۃالعین کے افسانے، ریحانہ قمر نگران ڈاکٹر نصراحمد خاں، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی. نئی دہلی، 1980ء
== قرۃالعین حیدر کے چار ناولٹ، صالحہ مرزا نگران حامدی کاشمیری، کشمیر یونیورسٹی. سرینگر، 1990ء
== قرۃالعین حیدر کی ادبی تنقید- ایک محاکمہ، حنا کنول نگران ڈاکٹر روبینہ ترین، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی. ملتان 2005ء
== قرۃالعین حیدر کے افسانوں کا فکری اور فنی ارتقا، جمیل اختر نگران ڈاکٹر محمد حسن، ڈاکٹر نصیراحمد خاں،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی. نئی دہلی

#مقالات ایم اے !! 👇
== قرۃالعین حیدر کے افسانے، فوزیہ محمود علی، نگران ڈاکٹر انوار احمد، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی. ملتان 1984ء
== قرۃالعین حیدر کے ناولوں میں عورت کا تصور، نوشین خورشید، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی. ملتان 1999ء
٭٭٭٭٭٭٭