اخترؔ انصاری اکبر آبادی یومِ وفات 18؍اگست

18؍اگست 1985

*نظم نگار، افسانہ نگار، تنقید نگار اور اردو ادب کے استاد شاعر” اخترؔ انصاری اکبر آبادی صاحب“ کا یومِ وفات…*

*اخترؔ انصاری* کا نام *محمد ایوّب انصاری* تھا ، *اخترؔ* تخلص اختیار کیا ۔ *۵ا؍اگست ۱۹۲۰* کو *آگرہ* میں پیدا ہوئے ۔ تقسیم ملک کے بعد کراچی ہجرت کرگئے ۔ ادبی دنیا میں *اخترؔ انصاری* کی شناخت ان کی شاعری اور ادبی صحافت کے باب میں ان کی مسلسل کوششوں کے ذریعے قائم ہوئی ۔ کراچی ہجرت کر جانے کے بعد *اخترؔ* نے ماہنامہ *’’ نشیمن ‘‘ اور ’’ مشرق ‘‘* کی ادارت کی ۔ پھر *حیدرآباد ( سندھ)* میں اپنے قیام کے دوران مشہور ادبی رسالہ *’’ نئی قدریں ‘‘* نکالا ۔ *اخترؔ انصاری* کی شاعری اور نثر میں متعدد کتابیں شائع ہوئیں ۔
*شعری مجموعے :*
*کیف و رنگ ، نالہ پابند نے ، جامِ نو ، دلِ رسوا ، لبِ گفتار* ۔
*نثری کتابیں :-*
*نظریات ، جمالِ آگہی ، اکبر اس دور میں ، فردوسِ مغلیہ ، نگارشات ، ادبی رابطے لسانی رشتے ، سبد چیں ، شاہ عبداللطیف : حیات اور شاعری* ۔

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

🌸🌸 *معروف شاعر اخترؔ انصاری کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…* 🌸🌸

لحاظ وضع داری میں کبھی ممکن نہ ہو شاید
تمہارا دو قدم آنا ہمارا دو قدم جانا

*تیری خاک پہ روشن روشن اخترؔ جیسے ستارے تھے*
*تجھ سا اے مہران کی وادی کوئی بلند اقبال نہ تھا*

ان کے لب پر ہے تبسم مری آنکھوں میں سرور
کیا دکھائی ہے دعاؤں نے اثر کی صورت

دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ

موت بھی زندگی ہے غور سے دیکھ

*زندگی ہوگی مری اے غم دوراں اک روز*
*میں سنواروں گا تری زلف پریشاں اک روز*

*گلوں کا ذکر بہاروں میں کر چکے اخترؔ*
*اب آؤ ہوش میں برق و شرر کی بات کرو*

ہر لمحہ عطا کرتا ہے پیمانہ سا اک شخص
آنکھوں میں لیے بیٹھا ہے مے خانہ سا اک شخص

*نظر سے صفحۂ عالم پہ خونیں داستاں لکھیے*
*قلم سے کیا حکایاتِ زمین و آسماں لکھیے*

کاروانوں کے رہبر نے راہزن پھر بھی منزل پہ کچھ راہرو آ گئے
وہ نئے کاروانوں کے رہبر بنے جن سے ہے عظمتِ رہبراں آج تک

کوششِ پیہم کو سعیٔ رائیگاں کہتے رہو
ہم چلے اب تم ہماری داستاں کہتے رہو

*کیفیت کیا تھی یہاں عالم غم سے پہلے*
*کون آیا تھا تری بزم میں ہم سے پہلے*

موجِ تلاطم خیر ہیں ہم ساحل کے قریب آتے ہی نہیں
وقت کی رو میں بہہ جائیں ہم ایسے خس و خاشاک نہیں

*طلب میں صدق ہے تو ایک دن منزل پہ پہنچو گے*
*قدم آگے بڑھاؤ خود کو اپنا رہنما سمجھو*

یہ رنگ و کیف کہاں تھا شباب سے پہلے
نظر کچھ اور تھی موجِ شراب سے پہلے

*یہ محبت کی جوانی کا سماں ہے کہ نہیں*
*اب مرے زیرِ قدم کاہکشاں ہے کہ نہیں*

*فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے*
*یہاں بھی اپنے بیگانے سے نکلے*

*گلوں کا ذکر بہاروں میں کر چکے اخترؔ*
*اب آؤ ہوش میں برق و شرر کی بات کرو*

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🔳 *اخترؔ انصاری*🔳

*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*