ڈاکٹر راحتؔ اندوری وفات 11 اگست

11؍اگست 2020

ممتاز نغمہ نگار، منفرد انداز کے لیے معروف اور عالمی مشاعرے کے سب سے مقبول شاعر” ڈاکٹر راحتؔ اندوری صاحب “ کا یومِ وفات…

نام *راحت اللہ* اور تخلص *راحتؔ* ہے۔ *یکم؍جنوری ۱۹۵۰ء* کو *اندور ، ( مدھیہ پردیش) بھارت* میں پید ا ہوئی۔ انہیں کراچی کے عالمی مشاعرے میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
*’’ دھوپ، دھوپ‘‘، ’’میرے بعد‘‘، ’’پانچواں درویش‘‘، ’’رت بدل گئی‘‘، ’’ناراض‘‘، ’’موجود‘‘* ۔
*١١؍اگست ٢٠٢٠ء* کو *راحتؔ اندوری صاحب* انتقال کر گئے۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:401*

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦

💐💐 *ممتاز شاعر راحتؔ اندوری صاحب کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…* 💐💐

اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

*اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے*
*یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے*

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

*نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا*
*ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا*

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پہ دوہری نقاب رکھتے ہیں

*شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم*
*آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے*

آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو

مجھے بھروسہ ہے اپنے لہو کے قطروں پر
میں نیزے نیزے کو شاخ گلاب کر دوں گا

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے

ساتھ منزل تھی مگر خوف و خطر ایسا تھا
عمر بھر چلتے رہے لوگ سفر ایسا تھا

مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے
مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے

صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہیئے
اے خدا دشمن بھی مجھ کو خاندانی چاہیئے

میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی

یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

رشتوں کی دُھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے

خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر
جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے

ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو ہندستان کہتے ہیں

*ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے*
*جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے*

یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی رہی
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں

‏شہر والوں سے حقارت کے سوا کچھ نہ ملا
زندگی آ تجھے لے جاؤں کسی گاؤں میں

*ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے*
*ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے*

میں آئینوں سے تو مایوس لوٹ آیا تھا
مگر کسی نے بتایا بہت حسیں ہوں میں

*لگے کی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں*
*یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے*

اب کے جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی

*لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں*
*اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں*

مجھ میں کتنے راز ہیں بتلاؤں کیا
بند اک مدت سے ہوں کھل جاؤں کیا

منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے

*دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے*
*اے موت تونے مجھ کو زمیندار کر دیا*

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🔲 *ڈاکٹر راحتؔ اندوری*🔲

*انتخــــــــــاب : اعجاز زیڈ ایچ*