وفاؔ ملک پوری ولادت 1 اگست

یکم اگست 1923

*’صبح نو’ کے مدیر اور معروف شاعر” وفاؔ ملک پوری “ کا یومِ ولادت…*

اصل نام *سید عباس علی رضوی* تھا ان کی پیدائش *یکم اگست ۱۹۲۳ء* کو *ملک پور، دربھنگہ* میں ہوئی ۔ فاضل کی سند حاصل کی ۔ ۱۹۳۵ سے شاعری شروع کی ۔
*وفاؔ* نے مرثیے کے علاوہ اور دوسری کلاسیکی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ۔ قصیدہ ، مسدس ، رباعی ، قطعہ ، سلام ، نوحہ ، نظم اور غزلیں کہیں ۔ وفا کی شاعری کو جلا بخشنے میں جمیل مظہری کی تربیت کا بڑا حصہ ہے ۔ وفا آخر تک اپنا کلام جمیل مظہری کو دکھاتے رہے اور ان سے مشورۂ سخن کرتے رہے ۔
*وفا ملک پوری* کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کی صحافتی خدمات بھی ہیں ۔ تقریبا ۲۶ سال تک وہ صحافت سے وابستہ رہے ۔ انہوں نے ایک رسالہ ’ صبح نو ‘ کے نام سے نکالا اس رسالے نے نئی نسل کی ذہنی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ۔
*وفاؔ ملک پوری* کی وفات *یکم؍جون ۲۰۰۳ء* میں *پورنیہ* میں ہوئی ۔

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

*፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤*

💐💐 *معروف شاعر وفاؔ ملک پوری کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…* 💐💐

ان کی نگہِ ناز کے ٹھکرائے ہوئے ہیں
ہم جرمِ محبت کی سزا پائے ہوئے ہیں

یہ سایہ نشینان گزر گاہِ تمنا
کچھ عشق کے کچھ عقل کے بہکائے ہوئے ہیں

اب ان کو نئی صبح کے پیغام سنا دو
جو تیرگی وقت سے گھبرائے ہوئے ہیں

مے چھلکے گی مے ابلے گی مے برسے گی رندو
مے خانے میں خود شیخ حرم آئے ہوئے ہیں

توبہ نہیں ٹوٹے گی سبو آئے کہ خم آئے
مے کش تری آنکھوں کی قسم کھائے ہوئے ہیں

ان اشکوں کے قطروں کو بھی بے مایہ نہ سمجھو
مظلوموں کی آنکھوں میں جگہ پائے ہوئے ہیں

اب ان کے تغافل کا وفاؔ ذکر نہ چھیڑو
دیکھو تو وہ کس ناز سے شرمائے ہوئے ہیں

══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══

سوزِ غم سے جگر جل رہا ہے مگر مرا دردِ نہاں آشکارا نہیں
گھٹ کے مرنا گوارا ہے اے چارہ گر رازِ الفت عیاں ہو گوارا نہیں

شمع جلتی رہی رات ڈھلتی رہی نبض بیمار رک رک کے چلتی رہی
آ کے دم بھر کے مہماں کو اب دیکھ لو اس کے بچنے کا کوئی سہارا نہیں

بچ کے طوفاں کی زد سے کہاں جائے گا اب کہاں تک تلاطم سے ٹکرائے گا
اس سفینہ کو اب ڈوب جانے بھی دو جس کی قسمت میں کوئی کنارا نہیں

ہے چمن تو وہی وہ نشیمن کہاں چند تنکوں کی خاطر چلیں آندھیاں
اب وہ جھونکے نہیں اب وہ طوفان نہیں اب وہ شعلے نہیں وہ شرارا نہیں

خار و گل میں ہے باہم یہ پیکار کیا یہ جفا و وفا میں ہے تکرار کیا
دل کی بازی میں ہے جیت کیا ہار کیا حسن جیتا نہیں عشق ہارا نہیں

جس سے بزم وفا میں چراغاں نہ ہو دل کی ویران بستی گلستاں نہ ہو
یہ تبسم تو کوئی تبسم نہیں یہ اشارا تو کوئی اشارا نہیں

دل سے بگڑی خرد سے خفا ہو گیا دین و دنیا سے نا آشنا ہو گیا
بیٹھے بیٹھے وفاؔ کو یہ کیا ہو گیا اب تمہارا کرم بھی گوارا نہیں

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🍁 *وفاؔ ملک پوری* 🍁

*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*