نیک بخت…. نصرت یوسف

سنگی بنچ پر بیٹھی عورت سنگی مجسمہ ہی لگ رہی تھی، میں کھاتے پیتے گھرانوں کی اس بستی میں روز  روزی روٹی کے لیے گردش کرتا ہوں، ٹین ڈبے والا
ردی والا
کباڑیا
میری شناخت کے مختلف عنوانات ہیں، لیکن میرا بیٹا جو کہ پڑھ لکھ گیا ہے، میرا ٹھیلا رنگ روغن کرتے مجھے ہدایت کرچکا ہے کہ آپ انگریزی کا لفظ استعمال کریں، اور اپنے آپ کو اسکریپر کہا کریں، میں نے اس سے پوچھا بھی، اسکریپر کا مطلب کیا؟ تو جو اسنے بتایا اسے اپنی زبان میں کباڑیا ہی کہتے ہیں. خیر جوان اولاد جب کہ وہ دو لفظ زیادہ جانتی ہو اختلاف کون کرے سو میں چپ ہی رہا، پر رہا میں کباڑیا محمد سلیم.
ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ وہ عورت آبنوسی رنگ  کےپتھر کی مورت لگ رہی تھی، دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں کسی کاپی سے نکلا ورقہ پھڑ پھڑا رہا تھا، اس وقت گلی میں کوئ نہ تھا میں ٹھیلے کو دھکیلتا اسکے قریب پہنچا، اس وجود کی ہئیت اور سلیٹی رنگ کے کپڑوں کی وضع بتاتی تھی کہ وہ ارد گرد بنے خوشحال گھروں میں کام کرتی ہے، مجھے وہاں سے نہ کھسکتا دیکھ اسکے وجود میں جنبش ہوئ اور ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے ٹکڑے کو عجیب نظروں سے دیکھا، کاغذ کا وہ ٹکڑا اس عورت سے زیادہ جاندار لگ رہا تھا، ہوا سے متحرک تھا، زندہ سا خوش خط تحریر میں تھا.
میرا خط بھی اچھا ہے، ماسٹر جی کی گھڑکی اور مار دونوں نے بڑا فائدہ دیا. میری نگاہ لکھا پڑھنا چاہ رہی تھی لیکن بسم اللہ شریف سے زیادہ نہ پڑھا تھا کہ عورت نے دوپٹہ کا بکل مجھے دیکھ کر ایسے مارا کہ میں اسکے انداز سے جان گیا حیا دار زنانی ہے ،ورنہ پچھلی گلی میں ناریل کے درختوں والے بنگلے کی کام والی جس انداز میں مخمل چڑھے دو اسٹول کل بیچ کر گئ وہ بھی کچھ نیا نہ تھا، میں کباڑیا ضرور ہوں، بیوقوف نہیں، بہت کوشش کی اسنے کہ اسٹول کے میں ہزار دے دوں، میں نے بھی اسکو چھ سو سے زیادہ نہیں دیے.. اب بھی سو اوپر ہی دیے کہ اسکے” ارے بھائی “کہنے کا انداز ہی آفت تھا. چلو میرا وقت ہی دن کی تپتی دھوپ میں کچھ خوشگوار کر گئ،
پر یہ مجسمہ والی عورت مختلف تھی، میں اسکی ناگواری بھانپ کر دو قدم پیچھے ہوا تو وہ تیز قدم اٹھاتی تیزی سے گلی مڑ گئ.  نصف النہار پر سورج  ، مہینہ جون، تارکول کی سیاہ سڑک جو پچھلے ماہ پورے پانچ برس کے بعد ہموار بنی تھی، سورج  ساتھ ایکا کیے تھی. میں نے اپنے کندھے پر پڑے رومال سے چہرے کا پسینہ پوچھا اور طاقت سے آواز لگاتا ٹھیلہ دھکیلتا اسی گلی میں مڑا جہاں وہ غائب ہوچکی تھی  “ٹین ڈبے والے!
پرانے سامان والے!
مخملی گدی کے اسٹول بڑے کار آمد رہے، میری بیوی نے اسے گھر میں سجادیا، وہ حیرت کرتی رہی کہ ایسا اچھا سامان کوئی کباڑیے کو کیسے دیتا ہے، مجھے بھی حیرت ہی تھی لیکن اندازہ تھا کہ اس پھلجھڑی نے ما لکن سے  مانگ کر موقع دیکھ کر  بیچ دیے ہونگے، بڑے علاقوں می‌ میں یہ ہیرا پھیری عام ہے، ہمیں سب علم ہوتا ہے لیکن پیڑ گننے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا سو میں بھی آم کھاتا ہوں..بنا پیڑ اور گٹھلیاں گنے.
لیکن اس بار عرصے بعد پیڑ اور گٹھلیاں سب گلے آگئیں جب بیوی نے غصہ بھری آواز میں طعنہ دیا “اور نہ سنو بیٹے کی، کباڑیے ہی رہوگے، کھٹمل بھری گدیاں لے آۓ”. کھانا کھاتے کریلے کی بھاجی کا مزیدار نوالہ حلق سے گزر کر خون تک کڑواہٹ پھیلا گیا. بیس سال اس عورت کے ساتھ رہتے اسکی زبان کی دھار اجنبی نہ تھی، لیکن پھر بھی نیک بخت کہتا تھا کہ سگھڑ عورت تھی، پاپڑ بناکر گھریلو اخراجات کے لیے رقم بناتی  تھی.
پلٹ کر میں نے بھی اسے دو چار ہمیشہ کی طرح سنادیں جسے سن کر وہ اپنی قسمت کو کوسنے لگی. یہ منظر بھی بیس برس سے یکساں تھا. تینوں لڑکے یہ دیکھتے ہی پلے تھے، سواۓ پڑھے لکھے احمد کے دونوں چھوٹے بےنیازی دکھاتے مگن رہتے، لیکن احمد ہمیشہ ناگواری سے دیکھتا، جب سے یونیورسٹی کے باہر چاٹ بیچ کر دو چار پیسے کمانے لگا مجھے ٹوکنے لگا ، کماتے دونوں چھوٹے بھی ہیں، دودھ لسی کی دکان پر کام کرکے مہینہ کے اچھے پیسے بنا لیتےہیں لیکن تعلیم دلانا میری طاقت سے باہر تھا، احمد کو قدرتی شوق تھا سو وہ اپنی لگن سے محلے کے اکلوتے پڑھے لکھے چچا بشارت سے لکھنا پڑھنا سیکھ گیا، کب اسنے دسویں پاس کی، کب گیارہویں گھر والوں کو خبر نہ تھی، ہاں مجھے یہ تسلی تھی کہ بشارت چچا پلمبری اچھی جانتا ہے، احمد کو ہنر مند بنا دے گا. پوری بارہ جماعتیں پاس کرکے جب وہ موتی چور کے لڈو خاکی لفافے میں لایا تو میری نظریں بارہویں پاس بیٹے کو دیکھتے دھندلانے لگیں.. پر نیک بخت نے مجھے لڈو اسی وقت تھما دیا “اب کھا بھی لو، کیا ٹکر ٹکر دیکھ رہے ہو میرے لعل کو” مجھے اسکے کہنے پر ہنسی آئ تھی
“لعل کیا جہیز میں لائ تھی؟” ، لڈو منہہ میں رکھتے میں نے کہا تواحمد نے ہاتھ جوڑ دیے “اماں ابا اب لڑو نہیں، خوشی کا دن ہے، لڈو کھاؤ اور کھلاؤ” دونوں چھوٹے بارہویں تک تعلیم سے مرعوب ہوۓ یا نہیں پر لڈو کھاتے خوش تھے، سب گھر والے عرصے بعد کسی ایک بات پر ہنستے باتیں کرتے کھا پی رہے تھے.
احمد بارہویں پاس بیس برس کی عمر میں ہوا تھا، میرے بھائی کی بیٹی نمرہ اسکی بچپن کی منگ تھی، احمد شادی کا چاؤ اسکی ماں کو آنے لگا تھا، “اچھا کماتا کھاتا لڑکا ہے میرا، پوری بارہ جماعتیں پاس، اب تو کسی پیسے والے گھر میں شادی کرونگی”
نیک بخت کے یہ ارادے کچھ ٹھیک نہ تھے لیکن احمد کا کچھ نہ بولنا زیادہ تشویشناک تھا. “کیا وہ بھی ایسا ہی چاہتا ہے جیسا اسکی ماں چاہتی ہے، میں پریشان تھا…
اسی پریشانی میں ٹین ڈبے والے!
پرانے سامان والے!
آواز لگاتے وہ مجسمہ بنی عورت پھر مل گئ، آج وہ بنچ پر بیٹھی کان سے فون لگاۓ تھی، میں نے نیفے میں اڑسے تین چار بڑے نوٹوں کو ہاتھ پھیر کر محسوس کیا، کل اچھی قیمت ملی تھی دو گھومنے والی اور چار پلاسٹک کی کرسیاں اور ایک لکڑی کی میز کو بیچنے پر، پھلجھڑی سے لگا تار یہ دوسرا سودا تھا. پچھلے کی کھٹمل کہانی پر میں نے اسکو خوب سنائ تو وہ کھل کھل کرکے ہنسنے لگی “کھٹمل نہ ہوتے تو تجھ کو کیوں دیتی چھ سو روپے میں ”
لیکن یہ دوسرا ٹھیک تھا، پورے دس ہزار ملے، جو نیفے میں موجود تھے. آج سوچا تھا سر درد بخار کی گولیوں کا مال کھیپیے سے لے کراپنے محلے کے دکاندار کو ایک دو ہزار اوپر بیچ دونگا.
کھیپیے کے ملنے سے پہلے ہی یہ راز بھری عورت مل گئ. کچھ جھجھکتا میں پھر اسکے قریب جا کھڑا ہوا تو بھی وہ بے نیازی سے فون پر باتیں کرتی رہی، دوپٹہ سر سے اترا تھا، کالے سیاہ بال میں کچھ تنکے اٹکے تھے “بڈھا! مطلب لڑکے کا باپ بڑا منحوس ہے، کہتا ہے ڈیڑھ سو باراتی لاؤنگا، بہت کہا میں نے بھائی پچاس لے آؤ میری اتنے لوگوں کو کھلانے کی حیثیت نہیں لیکن نہیں مانا،” .. ایک اور مکروہ گالی اسنے دی تو میں بنچ پر بیٹھ گیا، فون سنتے اسنے بے اختیار مجھے گھبرا کر دیکھا لیکن پھر آرام سے دوبارہ باتوں میں لگ گئ. سارا رولا شادی کے اخراجات کا تھا.
” کیا کروں اب بیٹی کی شادی تو کرنی ہی ہے، بڈھی ہوجائے گی ایسے تو “وہ بولتی جا رہی تھی، اتنے نزدیک بیٹھ کر مجھے اسکے پاس سے چنبیلی اور پسینہ کی ملی جلی باس آئ. بے اختیار ٹھیلے پر رکھے ڈبے میں ایسے خوشبو والا تیل رکھا یاد آیا جو پچھلے ہفتہ کباڑیے کے سامان میں رکھا تھا. قدم بڑھا کر میں لایا اور جھجھکتے اسکی جانب بڑھایا. ایک لمحہ کو اسکے چہرے پر طیش ابھرا لیکن پھر انگلیاں مس کرتے اسنے بوتل لے لی. اسکا لمس پھلجھڑی سے زیادہ سرور انگیز تھا، اس میں میل نہ بھرا تھا، اچانک مجھے اپنا بھائی اور احمد کی منگ نمرہ یاد آگئ اور میں گھبرا کر کھڑا ہوگیا، وہ میرے اسطرح کھڑا ہونے سے کچھ پریشان ہوگئ لیکن میرا سانس اچانک تیز چلنے لگا ، “کیا ہوا ٹھیک تو ہو؟ ” کیا خوبصورت آواز تھی لیکن میں نے مڑ کر بھی نہ دیکھا اور نہ جواب دیا، مجھے آج ہی نیک بخت اور احمد سے بات کرکے نمرہ کو ہی بہو بنانا تھا.