مولانا ابو الجلال ندویؒ

*رفیع الزماں زبیری*

مولانا ابوالجلال ندوی شمالی ہند کے علما کے ایک نامور خاندان کے فرد تھے۔ ندوہ سے اور پھر دارالمصنفین اعظم گڑھ سے تعلق تھا۔ ہندی، فارسی، عربی اور انگریزی پر عبور تھا۔ قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ کے عالم تھے، لسانیات اور ادبیات عالم ان کا خاص موضوع تھا تاریخ و تحقیق کے آدمی تھے، دماغ ان کا ہزاروں کتابوں کا حافظ تھا۔ احمد حاطب صدیقی نے جو ان کے چھوٹے بھائی کے بیٹے ہیں، ان کی یاد داشتیں مرتب کی ہیں۔ یہ یادداشتیں دیدہ، شنیدہ اور خواندہ ہیں۔ اس کتاب کا عنوان بھی یہی ہے۔

مولانا ابوالجلال کے آبائی گاؤں محی الدین میں جس علم پرور خاندان کی آبادی تھی اس کا تعلق حضرت صدیق اکبرؓ کی نسل سے تھا۔ یہ وہ اعزاز تھا جس پر اس خاندان کو بجا طور پر فخر تھا۔ احمد حاطب اپنی نانی سے روایت کرتے ہیں ’’جلال علم کا سمندر تھے جس موضوع پر بات کرنے بیٹھتے گھنٹوں بولتے رہتے مگر نہ بولنے والا تھکتا، نہ سننے والوں کو اکتاہٹ ہوتی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔‘‘

ندوۃ العلما سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اعظم گڑھ میں مولانا سلیمان ندوی نے انھیں دارالمصنفین میں رفیق کی حیثیت سے بلالیا۔ یہاں رہ کر ابوالجلال نے ہر قسم کے علوم اور فنون میں گہری نظر پیدا کی۔ قرآن و تفسیر، حدیث و فقہ کے ساتھ انھوں نے ہندوؤں کی مذہبی کتابوں پر بھی دسترس حاصل کرلی۔ مولانا بتاتے تھے کہ دارالمصنفین میں زیادہ تر وہ مضامین اور مقالے لکھتے تھے اور جو کتابیں چھپتی تھیں ان پر تنقید و تبصرہ بھی کرتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کا ذکر کرتے ہوئے، مولانا ابوالجلال نے کہا ’’اس میں شبہ نہیں کہ سید صاحب علامہ شبلی سے بڑے عالم تھے۔ سید صاحب کی کتاب زیادہ محققانہ ہے۔ علمی سرمایہ ان کے پاس بہت تھا۔‘‘

مولانا ابوالجلال کچھ عرصے بعد دارالمصنفین چھوڑ کر مدراس چلے گئے اور وہاں جمالیہ عربک کالج میں پرنسپل ہوگئے۔ اس کالج میں عربی کی تعلیم کے ساتھ دینیات کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مدراس میں اٹھارہ انیس سال گزار کر مولانا 1946 میں ایک بار پھر اعظم گڑھ آگئے اور دارالمصنفین سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں آکر انھوں نے ’’اعلام القرآن‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھنی شروع کی۔ اس موضوع پر جب مولانا کے مضامین ’’معارف‘‘ میں چھپنے شروع ہوئے تو علمی حلقوں میں ان کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ اصحاب علم کی طرف سے تعریف و تحسین کے خطوط آنے شروع ہوگئے۔ ان مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا جلال کی قرآن مجید، صحف بنی اسرائیل اور سامی اقوام پر ان کی نظر کتنی گہری اور عربی کے علاوہ عبرانی پر انھیں کتنا عبور تھا۔

احمد طب صدیقی بتاتے ہیں کہ مولانا جلال 1950 میں آٹھ سال کے لیے پھر مدراس گئے۔ اس بار ان کی علمی اور ادبی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے مدراس کے کتب خانوں سے استفادہ کیا اور حیرت انگیز علمی اکتشافات کیے۔ وہ لکھتے ہیں ’’اس دور میں موئن جو دڑو کی نو دریافتہ مہریں مولانا کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بنیں۔ یہاں انھوں نے ان مہروں پر ابتدائی کام کیا۔ یہیں انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ موئن جو دڑو کے رسم الخط کا رشتہ عبرانی اور عربی زبانوں سے ہے اور وادیٔ سندھ کی اس قدیم تہذیب کا تعلق انبیائے ماسبق اور مسلم تہذیب سے ہے۔‘