مختصر مگر جامع

*امام احمد بن حنبل نہر پر وضو فرما رھے تھے کہ ان کا شاگرد بھی وضو کرنے آن پہنچا، لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ھوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔*

*پوچھنے پر کہا کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ھے۔ مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے۔*

*اپنے سگے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟(عمر پوچھنا مقصود تھا)۔ کہا یارسول اللہﷺ بڑے تو آپ ھی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ھے۔*

*مجدد الف ثانی رات کو سوتے ھوئے یہ احتیاط بھی کرتے کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ھوں اور بیت الخلا جاتے ھوئے یہ احتیاط کرتے کہ جس قلم سے لکھ رہا ھوں اس کی کوئی سیاھی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔*

*ادب کا یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ھے اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ھی خاص نہ تھا۔ بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ھوئی جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اھمیت حاصل تھی کیوں کہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یاد تھا کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ھم میں سے نہیں۔*

*ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا، ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے اور اُن کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔ اس کے صدقے اللہﷻ انہیں نوازتا بھی تھا۔*
*اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی کہ جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے رزق میں اضافہ کرے وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔اور جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔*

*والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی اور اس کا تسلسل بھی صحابہؓ کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔*

*حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہتے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے اور جب وہ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ خود ھی کسی کام سے باہر نکلتے تو ان سے حدیث پوچھتے اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا، لو چلتی رہتی اور یہ برداشت کرتے رہتے۔*
*وہ صحابی شرمندہ ھوتے اور کہتے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ھوتا تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ھوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں اور اپنے کا م کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔*

*کتنی ھی مدت ھمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا (بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ھے) کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ھوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے جب کہ اب شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ھے۔*

*مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ھی محدود نہ تھا بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ھی احتیاط کی جاتی تھی۔ وہاں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔ چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ھی رہتا تھا۔*

*ابن عمررضی اللہ تعالی عنہ جا رہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔ کسی نے کہا کہ یہ بدو ہے تھوڑے پہ بھی راضی ھو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔ فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔*

*اسلامی تہذیب کمزور ھوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اھمیت کھو بیٹھی۔ اب برابر ی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ھوگئے اور شاگرد استاد کے برابر۔ اللّٰہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں والدین اور اساتذہ کرام کی عزت کی توفیق عطا فرمائے۔*
*آمین ثم آمین۔*

*(نسخ و لصق)*