رنجیت سنگھ وفات 27 جون

مہاراجا رنجیت سنگھ (پیدائش: 13 نومبر 1780ء– وفات: 27 جون 1839ء) پنجاب میں سکھ سلطنت کا بانی تھا۔ تقریباً چالیس سالہ دورِ حکومت میں اُس کی فتوحات کے سبب سکھ سلطنت کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود سے مل چکی تھیں۔
رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی میں اس کی بائیں آنکھ چیچک کے مرض سے ضائع ہو گئی تھی۔ سکرچکیہ مثل کے سردار مہان سنگھ کا بیٹا تھا۔ 1792ء میں سردار مہان سنگھ فوت ہوا جبکہ رنجیت سنگھ بارہ سال کی عمر میں سکرچکیہ مثل کا سردار بنا۔ سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کنہیا مثل میں ہوئی اور ان دو مثلوں کے اتحاد سے رنجیت سنگھ کی طاقت اور بھی مضبوط ہو گئی۔ اس کی ساس سدا کور تھی جو کنہیا مثل کی عالی ہمت خاتون سمجھی جاتی تھی ۔ اُس نے رنجیت سنگھ کی فتوحات میں بڑی مدد کی۔

سیاسی حالات
پنجاب پر درانی قبیلہ کی حکومت تھی، مگر یہ صوبہ سکھوں کی بغاوتوں کی وجہ سے درانی حکمرانوں کے اثر سے باہر تھا۔ شاہ زماں والیٔ کابل نے پنجاب پر حملہ کیا، مگر سکھ باغی اسے دیکھ کر اپنی پنا ہ گاہوں میں جا چھپے۔ شاہ زمان نے انہیں ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوشش کی، مگر ناکامی ہوئی، کیونکہ وہ جنگلوں، پہاڑوں اور اپنے مضبوط قلعوں میں چھپ چکے تھے۔ شاہ زمان کو کابل واپس جانا پڑا کیونکہ اس کی عدم موجودگی کے باعث دار الحکومت میں بغاوت کے آثار نمایاں ہوچکے تھے۔ اس نے لاہور اور پنجاب کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔

لاہور شہر سکھ لٹیروں کے قبضہ میں تھا، جن کی لوٹ مارسے عوام (ہندو، مسلم، سکھ) سبھی تنگ اور پریشان تھے۔ تب اہالیان لاہور کو رنجیت سنگھ کی شکل میں ایک وسیلہ نظر آیا، چنانچہ معززین لاہور نے رنجیت سنگھ کو خطوط لکھے کہ لاہور آکر حکومت سنبھالے۔ یہ حکم اسے شاہ زمان والیٔ کابل بھی دے چکا تھا۔

بیگمات
موراں
رانی گل بیگم
جند کور
تخت نشینی
رنجیت سنگھ نے انیس برس کی عمر میں جولائی 1799ء میں لاہور پر قبضہ کرکے اسے اپنی راجدھانی بنایا۔ لاہور پر قبضہ کے بعد اس نے اہالیان لاہور سے بہترین سلوک کیا اور اپنی سپاہ کو لوٹ مار کرنے سے منع کیا، جس سے وہ لاہوریوں میں مقبول ہو گیا۔

فتوحات
تین سال بعد 1802ء میں امرتسر فتح کیا۔ وہاں سے بھنگیوں کی مشہور توپ اور کئی اورتوپیں ہاتھ آئیں۔ چند برسوں میں اس نے تمام وسطی پنجاب پر ستلج تک قبضہ کر لیا۔ پھر دریائے ستلج کو پار کرکے لدھیانہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ لارڈ منٹو رنجیت سنگھ کی اس پیش قدمی کو انگریزی مفاد کے خلاف سمجھتا تھا۔ چنانچہ 1809ء میں عہد نامہ امرتسر کی رو سے دریائے ستلج رنجیت سنگھ کی سلطنت کی جنوبی حد قرار پایا۔ اب اس کا رخ شمال مغرب کی طرف ہوا اور لگاتار لڑائیوں کے بعد اس نے اٹک، ملتان، کشمیر، ہزارہ، بنوں، ڈیرہ جات اور پشاور فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔یہ علاقے پٹھان اور بلوچ قبائل کے زیر اثر تھے۔ رنجیت سنگھ نے نواب مظفر کو قتل کیا جس سے بلوچوں اور پٹھانوں نے رنجیت سنگھ سے بدلہ لینے کا عہد کیا اور اس محاذ کی سرپرستی بلوچ سردار میر بلوچ خان نے کی اور جرگے کے دوران لڑائی شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں رنجیت سنگھ مارا گیا۔ بلوچ خان نے اسکی لاش کو چوک پر لٹکا دیا اور ملتان کا قلعہ سمیت اپنے کھوئے ہوئے علاقے فتح کر لیے۔ کئی دنوں کے مزاکرات کے بعد رنجیت سنگھ کی لاش کو آخری رسومات کے لیے لاہور لےجایا گیا۔رنجیت سنگھ کی عبرت ناک موت کے بعد بلوچ قبائل سے جنگوں کا سلسلہ کافی حد تک رک گیا۔ اور انگریز سرکار نے بھی اس قوم سے لڑنے کی بجاۓ مفاہمت کے ساتھ امن سے رہنے کو ترجیح دی