یہ کس نے شاخِ گُل لاکر قریبِ آشیاں رکھ دی؟سیماب اکبر آبادی

یہ کس نے شاخِ گُل لاکر قریبِ آشیاں رکھ دی؟
کہ میں نے شوقِ گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی،

خلوصِ دل سے جو سجدہ ہو اُس سجدے کا کیا کہنا،
وہیں کعبہ سرک آیا جبیں ہم نے جہاں رکھ دی،

فرشتے لے گئے تھے وحشئی مرحومِ غربت کو،
اُنھی سے پوچھ لو میت کہاں پھینکی کہاں رکھ دی،

خدا کے سامنے بھی چل گئے تم چال محشر میں،
بجائے نامۂ اعمال دل کی داستاں رکھ دی،

کسی کو کیا جو قدموں پر جبینِ بندگی رکھ دی،
ہماری چیز تھی ہم نے جہاں جانی وہاں رکھ دی،

میرے سینے میں دل رکھا، میرے منہ میں زباں رکھ دی،
جہاں رکھنے کی جو تھی چیز، قدرت نے وہاں رکھ دی،

جو دل مانگا تو وہ بولے کہ ٹہرو یاد کرنے دو،
ذرا سی چیز تھی ہم نے خدا جانے کہاں رکھ دی،

دعا جب بےاثر ٹھہری تو پھر حکمِ دعا کیوں تھا؟
میری باتوں سے نفرت تھی، تو کیوں منہ میں زباں رکھ دی؟

سیماب اکبر آبادی