ترکی کی اسلامی تاریخ کا ایک یادگار دن 17 جون

17 جون 1950ء ترکی کی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے جب 18 سال کے بعد ترکی کے طول و عرض میں پہلی مرتبہ عربی میں اذان دی گئی۔اور یہ عدنان میندریس کے دور حکومت میں ممکن ہوا
عدنان میندریس (پیدائش: 1899ء انتقال: 17 ستمبر 1961ء) ترکی کے وزیر اعظم تھے جو 1950ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد 10 سال وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ فوجی انقلاب کے نتیجے میں مقدمے کا سامنا کیا اور پھانسی دے دی گئی۔
عدنان میندریس کے دور میں ترکی کی مذہبی پالیسی میں بھی اہم تبدیلیاں ہوئیں اور ان کی حکومت نے عوام سے کیے گئے تمام وعدے پورے کیے۔ 1932ء سے ترکی میں یہ پابندی تھی کہ اذان اور تکبیر عربی میں نہیں کہی جاسکتی اور 1941ء کے بعد اس حکم کی خلاف ورزی جرم قرار دی گئی تھی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت نے بر سر اقتدار آنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ 16 جون 1950ء کو مجلس کبیر ملی کی قرارداد کے ذریعے اس قانون کو منسوخ کر دیا اور اس دن وزیر اعظم عدنان میندریس نے تار کے ذریعے تمام صوبوں میں اطلاع بھیج دی کہ دوسرے دن سے ترکی میں اذان اور تکبیر اقامت عربی میں کہی جاسکتی ہے۔ 17 جون 1950ء ترکی کی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے جب 18 سال کے بعد ترکی کے طول و عرض میں پہلی مرتبہ عربی میں اذان دی گئی۔

عدنان میندریس کے دور میں مسجدیں بھی کثرت سے تعمیر کی گئیں جن میں انقرہ میں اتاترک کے مزار کے سامنے قائم مسجد بھی شامل ہے جس کے لیے عدنان نے اپنی جیب سے ایک لاکھ لیرا دیے۔

علاوہ ازیں عدنان میندریس کے دور میں حج پر عائد پابندیاں بھی اٹھالی گئیں اور 1950ء میں 25 سال بعد 423 ترکوں نے فریضۂ حج ادا کیا۔

عدنان میندریس کا ایک اور کارنامہ محکمہ مذہبی امور کا قیام تھا۔ یہ محکمہ تو اتاترک کے زمانے میں بھی موجود تھا لیکن اس زمانے میں اس دائرۂ کار محدود تھا اور اس کا کام اسلامی پیغام کی توسیع و اشاعت سے زیادہ اسلامی ‎سرگرمیوں کی نگرانی کرنا تھا لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کے دور میں اس محکمے نے اسلامی علوم کی توسیع و اشاعت اور عوام میں اسلامی روح پیدا کرنے میں نمایاں حصہ لیا۔ محکمہ کے تحت پرانی اور نئی اسلامی کتب بھی ترجمہ کی گئیں جن میں پاکستان کے مولانا مودودی اور مصر کے سید قطب کی کتابیں بھی شامل تھیں۔

مختصر یہ کہ عدنان میندریس کے دور حکومت میں وہ بیڑیاں بڑی حد تک کاٹ دی گئیں جو ترکی میں قیام جمہوریت کے وقت اسلام کے پاؤں میں ڈال دی گئی تھیں۔ عدنان خاص طور پر اتاترک کے نظریات کے اس قدر مخالف تھے کہ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر ان کا بس چلے تو ملک سے اتاترک کی ایک ایک یادگار مٹادیں۔