شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی دینے پر تحریکِ انصاف آمادہ

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہ بنانے کے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔

وفاقی وزیر خارجہ اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی نے جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بنانے کا گرین سگنل دیا۔
امہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے یہ اقدام جمہوریت کی مضبوطی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے اٹھایا ہے۔

اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری متعدد بار کہہ چکے تھے کہ وہ کسی طور پر بھی میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بنائیں گے کیونکہ ان کے خلاف نہ صرف نیب کے مقدمات ہیں، بلکہ گذشتہ حکومت بھی ان کی جماعت کی تھی۔

وفاقی حکومت اس بارے میں یہ موقف اختیار کرتی رہی ہے کہ چونکہ گزشتہ حکومت پاکستان مسلم لیگ نواز کی ہی رہی ہے، تو میاں شہباز شریف کیسے اپنی ہی حکومت کے خلاف آڈٹ پیراز کی چھان بین کرسکیں گے؟

قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا تھا کہ اگر میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہ بنایا گیا تو وہ کسی بھی قائمہ کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گی۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے جمعرات کو اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور انھیں صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کی مضبوطی کی ذمہ داری صرف حکومت پر نہیں بلکہ حزب مخالف کی جماعتوں پر بھی ہے۔

نامہ نگار کے مطابق شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وفاقی حکومت یہ معاملہ اپوزیشن لیڈر پر چھوڑتی ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کر دیں اور اگر وہ خود بھی چیئرمین بننا چاہیں تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

انھوں نے کہا ’ہم نے قائدِ حزبِ اختلاف کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے کسی بھی شخص کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کر دیں۔ لیکن اگر آپ خود چیئرمین بننا چاہتے ہیں تو بھی ٹھیک ہے۔ جمہوریت کی بقا کی خاطر اور اس ایوان کو فعال رکھنے کے لیے ہم آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔’

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی کرنی ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے قائمہ کمیٹیوں کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ رہا۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوئی تو اس کی ذمہ داری صرف حکومت پر عائد نہیں ہوگی بلکہ تمام جماعتیں اس کی ذمہ دار ہوں گی۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اگر سابق حکومت کے آڈٹ پیرا کی باری آئے گی تو وہ اس اجلاس کی صدارت نہیں کریں گے۔

قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان پر بدعنوانی کا ایک بھی الزام ثابت ہو جائے تو وہ زندگی بھر کے لیے سیاست چھوڑ دیں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ نیب کے حکام نے اُنھیں صاف پانی کے مقدمے میں بلایا تھا لیکن اُنھیں آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں گرفتار کر لیا گیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نیب نے صاف پانی کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا ہے لیکن اس ریفرنس میں ان کا نام ہی نہیں ہے۔

اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ موجودہ حکومت اور نیب کے درمیان ایک ’ناپاک اتحاد‘ ہے۔ قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ نیب کو صرف حزب مخالف کی جماعتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ خود وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے خلاف ریفرنس ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اُنھیں رکن پارلیمان کا حلف اُٹھائے تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج پارلیمنٹ مکمل ہوئی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت نے پندرہ سال پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر ان دونوں جماعتوں میں سے کسی کی بھی حکومت آئے تو پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین قائد حزب اختلاف ہوں گے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیا ہے اور اس کا کام کیا ہے؟
وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ میں جس جس وزارت اور محکمے کو جو پیسے ملتے ہیں اس کی آڈٹ رپورٹ میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جائزہ لینا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کام ہوتا ہے۔

پبلک اکاونٹس کمیٹی مختلف سرکاری محکموں کو دی جانے والی سالانہ گرانٹس اور فنڈز سے متعلق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کو زیر بحث لاتی ہے اور جس ادارے کی سربراہ کو اس ضمن میں طلب کیا جائے تو اسے اس گرانٹ سے متعلق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔

مطمئن نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی اس معاملے میں ایف آئی اے یا کسی بھی تفتیشی ادارے کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی ادارے کے سربراہ کو طلب کرسکتا ہے۔

سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ متعدد بار نیب کے چیئرمین کو بھی طلب کر چکے ہیں۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ قائد حزب اختلاف ہی کیوں؟
چونکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کام حکومت کو ملنے والے پیسوں کا حساب کتاب لینا ہوتا ہے، اس لیے ماہرین کے مطابق حکومت کا اپنا چیئرمین ہونا مناسب نہیں۔

مسلم لیگ ن کے سابق صدر نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کے مطابق قائد حزب اختلاف کو چئیرمین بنانے کی روایت ڈالی گئی تھی۔

اس بارے میں صحافی ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھ کر نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت میں یہ شق رکھی تھی کہ آپوزشین لیڈر کو ہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘ماضی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین حکومت اپنا ہی لگا دیتی تھی، یہی وجہ ہے کہ آج تک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پاکستان میں ادارے کی حیثیت نہیں حاصل کر سکی۔’

‘پیسے کو صحیح جگہ خرچ کرنے کو یقینی بنانا اور غلط جگہ خرچ کرنے سے روکنے کا کام ماضی میں پبلک اکاؤنٹس کمینی نہیں کر سکی۔’

ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے یہ راستہ نکالا گیا کہ حکومت کا احتساب آپوزیشن کرے۔ انھوں نے کہا کہ ‘یہ ایک اچھا حل تھا کیونکہ اگر حکومت بھی میری ہو اور پبلک اکاؤنٹس کا چیئرمین بھی میرا تو یہ مناسب نہیں۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں