سپریم کورٹ نے نجی سکولوں کو بیس فیصد فیس کم کرنے کا حکم

پاکستان کی عدالت عظٰمی نے ملک بھر میں 5 ہزار روپے سے زائد فیس لینے والے نجی سکولوں کو فیس میں 20 فیصد کمی کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ نجی سکول 2 ماہ کی چھٹیوں کی فیس کا 50 فیصد والدین کو واپس کریں یا پھر انھیں مستقبل میں لی جانے والی فیسوں میں ایڈجسٹ کریں۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ پرائیویٹ سکول فیسوں میں سالانہ پانچ فیصد سے زائد اضافہ نہیں کر سکیں گے اور اگر پانچ فیصد سے زائد اضافہ کرنا ہوا تو ریگولیٹری باڈی سے اجازت لینا ہو گی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نجی سکولوں میں فیسوں سے متعلق از خود نوٹس پر فیصلہ سناتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو حکم دیا ہے کہ وہ بڑے نجی سکولوں کے اکاونٹس کا گزشتہ سات سالوں کا فرنزک آڈٹ کریں۔

عدالت نے اپنے عبوری حکمنامے میں کہا ہے کہ کہ کوئی سکول بند نہ کیا جائے اور اگر ایسا کیا گیا تو عدالت حرکت میں آئے گی اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائےگی
سپریم کورٹ نے 21 نجی سکولوں کےاکاونٹس اور لیجر قبضے میں لینے کا بھی حکم دیا ہے۔

اس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ایف بی آر کے چیئرمین کے علاوہ ڈپٹی آڈیٹر جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ بڑے سکولوں کے ڈائریکرز 80 لاکھ سے زیادہ تنخواہیں لے رہے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یا نجی سکول مالکان کے لیے سونے کی کان ہیں یا یورینیم کی۔

عدالت میں صرف دو نجی سکولوں کی آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران پانچ ارب روپے سے زیادہ تنخواہوں کی مد میں ادا کیے گئے جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ نجی سکولوں کے مالکان اربوں روپے کماتے ہیں لیکن طالب علموں کو دو روپے کی رعایت دینے کو تیار نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر تحقیقات کرے کہ کیسے کرائے کی کوٹھیوں میں سکول کھولے ہوئے ہیں جبکہ ایک ایک کمرے کے سکول سے اتنا اتنا پیسہ بنایا کہ یہ لوگ ارب پتی بن گئے ہیں۔

نجی سکول بیکن ہاؤس کے وکیل نے کہا کہ ان کی ہر برانچ کی فیس اور سالانہ اضافہ مختلف ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پنجاب حکومت اور سکولوں کی تنظیم کے درمیان مذاکرات کے دوران، پنجاب کے سابق وزیر تعلیم نے سالانہ 10 فیصد اضافے کا قانون بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ صرف صوبائی اسمبلی سے 8 فیصد کی منظوری لے سکے۔

عائشہ حامد جو نجی سکولوں کی طرف عدالت میں پیش ہوئیں، اُن کا کہنا تھا کہ تمام سکول 8 فیصد فیس کم کرنے کو تیار ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 8 فیصد تو اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے۔

بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نجی سکولوں نے اپنی آڈٹ رپورٹس میں غلط اعداد و شمار دیے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت نے ان نجی سکولوں کا گزشتہ 20 سال کا آڈٹ کرایا تو نتائج بہت مختلف ہوں گے۔
یاد رہے کہ آٹھ ستمبر 2015 کو پاکستان کے بڑے شہروں میں نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین نے فیسوں میں بلا جواز اضافے اور دوسرے اخراجات کی مد میں بے جا وصولیوں کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا۔

والدین کے احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمان کو والدین اور سکولوں کے مالکان اور انتظامیہ سے مذاکرات کی ذمہ داری سونپی تھی۔

ان مذاکرات کے بعد یہ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں نجی سکولوں کی فیسوں میں اضافہ واپس لینے کو کہا گیا ہے۔
اس وقت اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے احتجاج کے دوران مظاہرین کی نمائندہ عالیہ آغا نے کہا تھا کہ ‘پرائیویٹ سکولوں نے والدین کو اے ٹی ایم مشین سمجھ رکھا ہے، جب چاہا جتنا چاہا بل لگا کر بھجوا دیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کی ماہانہ فیس ادا کرتے ہیں، پھر اس کے بعد ہر سال سالانہ فیس ہم سے علیحدہ وصول کی جاتی ہے، اس کے بعد گرمیوں کی فیس علیحدہ ہے۔

‘ہر سال کے شروع میں ہزاروں روپے سیکنڈ ہینڈ یا اس بھی پرانی کتابوں کے کرائے کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں جنھیں سال کے آخر میں واپس لے لیا جاتا ہے۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں