شیشے جیسے لوگ میرا کالم اظہر نیاز

ہر معاشرے میں جہاں پتھر دل ہوتے ہیں وہاں شیشے جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان شیشے جیسے لوگوں کے ساتھ وہی ہوتا ہے،جو اُس شیشے کی دوکان کے سا تھ ہوتاہے جس میں شہ زور بھینسا گھس آئے۔ کبھی تنگ آ کر میں نے کہا تھا کہ ؂
یا تو لوگوں کو مجھ جیسا دل دے
یا میرے دل کو پتھر بنا دے
شہزاد احمد کا یہ شعر مجھے بہت پسند ہوتا تھا ؂
پتھر نہ پھینک دیکھ ذرا احتیاط کر
ہے سطحِ آب پر کوئی چہرہ بنا ہوا
پھر سطح آب گدلی ہونا شروع ہو گئی۔ پانی زمین کی تہو ں میں چلا گیا ۔ کچھ بخارات بن کر اُڑگیا۔ سطح آب پر بننے والا چہرہ خشک زمین کی دراڑں پر خو ف کی علامت بن گیا ۔ ایسا خوف جو قحط سے پہلے ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ کا عذاب یہ نہیں ہے کہ بارش نہ ہو بلکہ عذاب یہ بھی ہوتا ہے کہ بارش بھی ہو زمین کے اندر بیج بھی کاشت کیا جائے لیکن وہ بیج اپنی کونپلیں باہر نہ نکالے اگر کونپلیں باہر نکلیں تو اس میں پھول نہ لگیں اگر پھول لگیں تو اس پر پھل نہ لگے۔اگر پھل لگے تو اس میں رس نہ ہو۔ پھل گل سڑ جا ئے اس کے اندر کیڑے پڑے ہوں ۔ ساری انسانی طاقت ،دولت کے باوجود خدا کی رحمت اپنا منہ پھیر لے اور خدا کی اتنی توفیق بھی نہ ہو کہ ہمیںیہ سمجھ میں آئے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔ کیونکہ دعا کے لیے ہا تھ بھی اُسی کی توفیق ہو تو اُٹھتے ہیں۔منزل کی طرف قدم بھی اُس کی توفیق سے چلتے ہیں۔ زبا ن سے لفظ بھی اُسی کی توفیق ہوتوادا ہوتے ہیں۔
آج میں کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کر نا چاہتا ہوں جنہیں خدا نے توفیقِ دُعا بھی دی ہے ۔اور توفیقِ دوا بھی دی ہے۔ یہ لوگ شیشے جیسے لوگوں کی حفاظت پر معمور ہیں۔ جبر اََ نہیں خوشی سے، اپنی مر ضی سے۔
گزشتہ دنوں پاکستا ن انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS)میں مجھے ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا جوہیمو فیلیا Heamophilia) )کے مریضوں اور ان کے والدین کے لئے منعقد کی گئی تھی۔ مجھے پتہ چلا کہ یہ مر ض کیا ہو تا ہے ۔ہیمو فیلیا خون کا ایک مر ض ہے۔ عام آدمی کے جب چوٹ لگتی ہے خون بہتا ہے تو وہ جلد جم جاتا ہے زخم کے منہ پر خون کی خوبی کی وجہ سے کلوٹ Clotبن جاتاہے جو خو ن کو جمنے میں مدد دیتا ہے ۔ اور خون بہنے سے رک جاتا ہے ۔ہیمو فیلیا کے مر یض کو جب چوٹ لگتی ہے تو خون بہنے لگتا ہے ۔ خون میں جمنے کی خوبی کم ہوتی ہے اس لیے خون بہتا رہتا ہے ۔جو مر یض کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔بعض اوقا ت یہ بھی ہو تا ہے کہ چوٹ ایسے لگتی ہے کہ باہر تو اس کا نشان نہیں ہوتا لیکن اندرونی چوٹ ہوتی ہے تو اس بہنے والا خون اندر کی طرف اپنا راستہ ڈھونڈ تا ہے اور کئی دوسری پیچیدہ امراض کا باعث بن جاتا ہے۔
میں نے اس مرض کے بارے میں کچھ اور کھوج کی تو پتہ چلا کہ یہودیوں کی کتاب تلمود (Talmud)میں اس مر ض کا ذکر ملتا ہے۔ اس طرح سن1000ء معروف عرب حکیم ابو القاسم الزھاروی اپنی کتاب التصریف میں ایک خاندان کا ذکر کرتا ہے جس کے مرد معمولی چوٹ کے بعد خون بہنے سے مر جاتے تھے ۔ ایک زمانہ تھا اس کو شاہی مرض کہا جا تا تھا اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ برطانیہ کے بادشاہوں میں مر ض پایا جاتا تھا اور دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کا علاج صرف امیر لوگ ہی کروا سکتے تھے۔
برطانیہ کے شاہی خاندان میں یہ مرض سب سے پہلے ملکہ وکٹوریہ میں پایا گیا۔ملکہ وکٹوریہ جو برطانیہ، آئرلینڈ اور انڈیا کی ملکہ رہیں۔ ہیمو فیلیا چونکہ مورو ثی مرض ہوتاہے اس لئے یہ با ت بھی سامنے آئی کہ ملکہ وکٹوریہ کاباپ ڈیوک آف کینٹ(Duke of Kent)نہیں تھا بلکہ کو ئی ہیمو فیلیا کا مر یض تھا لیکن اس با ت کا ثبوت نہ مل سکا کہ کسی ایسے مر یض کے ملکہ وکٹوریہ کی ما ں سے تعلقات تھے جس کی وجہ سے مرض ملکہ وکٹوریہ تک منتقل ہوا ۔ملکہ وکٹوریہ سے مر ض آگے منتقل ہوا ۔ملکہ کی پا نچ میں سے دو بیٹیا ں اور ایک بیٹا شہزادہ لیوپولڈاس مر ض میں مبتلا ہوا۔ اس طرح یہ مرض ملکہ کے پوتوں ،پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں تک پھیل گیا۔ اس کے بعد ایک لمبی قطار ہے جس نے اس مرض کو شاہی مر ض بنا دیا ۔ وکٹوریہ ایک عہد کا نام ہے۔ 2002ء میںBBCکے ایک سر وے کے مطابق برطانیہ کے 100بڑے ناموں میں ملکہ وکٹوریہ 18ویں نمبر آئیں۔ ملکہ وکٹوریہ کی سلطنت طرح یہ مر ض بھی روس، سپین اور دیگر ملکوں میں شہزادے اور شہزادیوں کے ساتھ بڑی تیزی پھیلا ۔
یہ مر ض امریکہ میں بھی بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اس وقت کوئی 20ہزار افراد امریکہ میں اس مر ض میں مبتلا ہیں۔امریکہ اس پرخصوصی توجہ دے رہا ہے۔ رشتے داروں میں شادیوں کو خطرنا ک قراردے کر اس کی تعلیم دی جا ری ہے ۔میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔شا دی سے پہلے خون ٹیسٹ پر زور دیا جا رہا ہے ۔ اس کے باوجود ہر ما ہ 33بچے امریکہ میں اس مر ض میں مبتلاپیدا ہو رہے ہیں۔گویاسات بچے ہر ہفتے اور ایک بچہ روزانہ۔ امریکہ جیسے ملک میں یہ حال ہے تو ہمارے ملک میں کیا ہو گا ۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ ہماری آبادی کتنی ہے اور کتنے لوگ کس مر ض میں مبتلا ہیں۔شعبہ ہیمو فیلیا PIMSکی ورکشاپ میں شریک کچھاکھچ بھرے ہال میں محض راولپنڈی ، اسلام آباد اور اس کے گردونواح سے آئے ہوے بچے تھے ۔ اُن کے والدین تھے جن کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا تھا کی یہ لوگ اس شاہی بیماری کے متحمل نہیں ہو سکتے لیکن خوشی اس بات کی ہوئی کہ ان کا خیال رکھنے والے بادشاہوں جیسادل رکھتے ہیں۔ میں اُن میں سے ایک کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ڈاکٹر طاہرہ ظفر جوPIMS کے شعبہ ہیمو فیلیا کی انچارج ہیں۔ اُن کے مسکراتے ہوے چہرے کو دیکھ کر مریضوں کے آدھے دکھ ویسے ہی کم ہو جا تے ہیں اور جب وہ اپنی ٹیم کی Commitment اور وابستگی کا ذکرکر رہی تھیں تو اُن کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر ہی میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ان شیشے جیسے لوگوں کے لیے ایک کالم لکھنا چاہیے کہ میں اور کر بھی کیا سکتا ہوں لیکن مجھے امید ہے کہ اور لوگ اپنی توفیق بھر آگے بڑھیں گئے اور ساتھ ہی ساتھ ہیمو فیلیا کے مریض جنہیں شاید یہ معلوم نہ ہو کہ ان کے زخموں کے لیے مرہم لے کر کچھ لوگ ان کے منتظر ہیں تو وہ شعبہ ہیمو فیلیا PIMSسے رابطہ کر یں گے ۔
ہیمو فیلیا کے مریضو ں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک NGO بھی موجود ہے جو PIMSکے سا تھ مل کر کا م کر رہی ہے ۔ اس NGOمیں سب کے سب ہیمو فیلیا کے مریض ہیں۔ براہِ راست تعلق کی بنا پر ان کا جوش و جذبہ دید نی تھا ایک مریضہ نے شعر سنایا ؂
رنج کا خوگر ہو گر انساں تومٹ جا تا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
کہنا آسا ن ہے کر نا مشکل ہے لیکن ان لوگوں کو دیکھ کر مریضو ں میں حوصلہ پیدا ہو تا ہے کہ وہ بھی عام افراد کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔
ان شیشے جیسے لوگوں کا ہر وقت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وہاں ایک مثال سا منے آئی کہ ایک بچے نے اپنے منہ میں پینسل مارلی۔ اس کے علاج پرڈھائی لاکھ روپیہ خرچ آگیا۔ خون ہی نہیں رک رہا تھا ۔ اس سلسے میں پاکستان بیت المال اعانت فراہم کر تا ہے۔
ان ورکشاپ کا مقصدہیمو فیلیا کے مریضوں کو کئی طرح کی معلومات اور تربیت سے مسلح کر نا ہے۔ جس میں فرسٹ ایڈ کیا ہونا چاہیے۔احتیاطی تدابیرکیا ہو نی چاہیں۔فزیو تھراپی کے حوالے سے تربیت۔دانتو ں کی تکالیف کے با رے میں معلوما ت اور تربیت۔ اس طرح اردو کتابچے شائع کئے گے ہیں تا کہ بچے اور والدین ان سے استفادہ کر سکیں۔
ورکشاپ کے شرکاء جب آتے ہیں تو ان کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے کہ اب ان کی معلوما ت کیا ہیں ۔اور شام کو تربیت کے بعد پھر ٹیسٹ لیا جا تاہے۔ پتہ چلا کہ محض ایک دن کی تربیت ان کی معلوما ت میں تقریباََ 80%اضافہ کر دیتی ہے ۔ہیمو فیلیا چونکہ موروثی مر ض ہے۔ بچے کے ساتھ پیداہوتا ہے۔ یہ بچے کھیلتے ہیں۔مسکراتے ہیں۔پڑھتے ہیں لیکن ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ شیشہ کہیں ٹوٹ نہ جائے۔ چوٹ لگ گئی تو خون نہیں رکے گا۔
ڈاکٹر طاہرہ ظفر اور ان کی ٹیم نے بچوں اور والدین کے لئے چھ ورکشاپ کا اہتمام کیا ہے تا کہ بچوں اور والدین کو احتیاطی تدابیراور بنیادی علاج و معالجہ کی تربیت فراہم کی جائے ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ڈاکٹر اور ٹکنیشن کس محبت کے سا تھ سمجھا رہے تھے۔ یہ واقعی مسیحا ہیں‘ شیشے سے لوگوں کوٹوٹنے سے بچانے والے۔
دنیا بھر میں ہیمو فیلیا کے مریضوں کی انجمنیں موجود ہیں۔ سرکاری سطح پر ادارے موجود ہیں۔ بڑے بڑے فنڈموجود ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان میں بھی اس طرف توجہ دی جا ئے ۔ ایک تو احتیاطی تدابیر کی طرف کہ ’’کزن میرج‘‘ کی کم سے کم حوصلہ افزائی کی جا ئے دوسرا شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ کو لازم قرار دیا جائے کہ اس میںیرقان ،ایڈزہیمو فیلیا کے اثرات تو نہیں پائے جاتے ۔ ان مسائل اور ان کی پیچیدگیوں کو اخبارات ،ریڈیو، ٹیلی وژ ن کے ذریعے عام کیا جا ئے ۔ یا د رہے کہ اگر والدین میں سے ایک بھی ہیمو فیلیا کا مریض ہے،توان کے 50%بچے اس مرض میں مبتلاپیدا ہو سکتے ہیں۔
ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو شیشے کی طرح نا زک نہ بنائیں کہ ہم کوٹوٹنے کا دھڑکا لگا رہے بلکہ کیکٹس بنائیں کہ وہ ہر طرح کے نا موافق حالات،بنجر زمین،تند و تیزموسم ، پانی کی کمی اور قحط میں بھی اپنی جڑیں مضبوطی سے اس زمین کے سا تھ وابستہ رکھے اور پھر سب سے اہم بات کے کوئی کتا بلا اس پر منہ مارنے کی جراُت نہ کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں