جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے گرفتار ملزمان کو اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم

سماعت کے دوران ‘اومنی’ گروپ کے سربراہ انور مجید کے وکیل نے عدالت سے بار بار استدعا کی کہ ان کے مؤکل سے کراچی میں ہی تفتیش کی جائے جسے چیف جسٹس نے مسترد کردیا۔

لاہور —
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں گرفتار ملزمان انور مجید کو پمز اسپتال اسلام آباد جب کہ اے جی مجید اور حسین لوائی کو اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ملزمان ان کے قریب رہیں گے تو اثر زیادہ ہو گا۔

عدالت نے یہ حکم ہفتے کو لاہور رجسٹری میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران دیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ بہت بااثر ہیں، کراچی میں ان کا اقتدار ہے۔ یہ کراچی میں کیس پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ انہیں اسلام آباد منتقل کیا جائے تاکہ آزادانہ تفتیش ہو سکے۔ مکمل تفتیش کے بعد دیکھا جائے گا کہ انہیں واپس بھجوایا جائے یا نہیں۔

سماعت کے دوران ‘اومنی’ گروپ کے سربراہ انور مجید کے وکیل نے عدالت سے بار بار استدعا کی کہ ان کے مؤکل سے کراچی میں ہی تفتیش کی جائے جسے چیف جسٹس نے مسترد کردیا۔
وکیل کے اصرار پر بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے اصرار سے ہم زیادہ غیر مطمئن ہو رہے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے۔

انور مجید کی اہلیہ نے عدالت سے کہا کہ ان کے شوہر بیمار ہیں، انہیں کراچی ہی رہنے دیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر انور مجید عام جہاز پر نہیں آسکتے تو ایئر ایمبولینس میں لے آئیں۔ آپ بھی ساتھ آ جائیں اور اسپتال میں ان کی خدمت کریں۔

دورانِ سماعت ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ انور مجید تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب جے آئی ٹی کو بااختیار بنا دیا گیا ہے۔ دس دن میں آپ اپنی رپورٹ مکمل کریں اور تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

انہوں نے کہا کہ جےآئی ٹی اس لیے بنائی تاکہ جان سکیں کہ کک بیکس کے پیسے کو قانونی کیسے بنایاگیا؟
دورانِ سماعت انور مجید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اومنی گروپ نے 1.2 ارب سلک بینک، 1.8 ارب سمٹ بینک، 4.98 ارب نیشنل بینک اور 4.6 ارب سندھ بینک کو ادا کرنے ہیں۔ یہ ادائیگیاں پراپرٹی اور رقوم کی صورت میں مرحلہ وار کی جائیں گی۔

جسٹس ثاقب نثار نے وکیل سے کہا کہ مقررہ تاریخ تک ادائیگیاں نہ ہوئیں تو قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

اس موقع پر جے آئی ٹی نے عدالت کو بتایا کہ اومنی گروپ مارکیٹ ویلیو سے زیادہ اپنی پراپرٹی کا ریٹ بتا رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جائیدادوں کی قیمتوں سے متعلق تمام بینکوں کے سربراہان حلف نامے جمع کرائیں اور 10 دن کے اندر دوبارہ ویلیوایشن کرا کے رپورٹ جمع کرائیں۔

‘ایف آئی اے’ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے مبینہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کررہی ہے اور اس سلسلے میں کاروباری گروپ ‘اومنی’ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں جنہیں کراچی میں رکھا گیا ہے۔

اب تک کی تحقیقات کے مطابق مختلف بینکوں میں درجنوں جعلی اکاؤنٹس سامنے آچکے ہیں جن میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کی گئیں۔
منی لانڈرنگ کیس 2015ء میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا جب بینک نے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ بھیجی تھیں۔

تحقیقات کے بعد پتا چلا تھا کہ جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے بینک انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے تھے۔ تمام اکاؤنٹس 2013ء سے 2015ء کے دوران کھولے گئے تھے جن کے ذریعے اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کی گئی۔

منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے سربراہ اور سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید کو سپریم کورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا جب کہ زرداری کے ایک اور قریبی ساتھی نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ہیں۔

مقدمے میں خود آصف زرداری اور ان کی بہن فریال ٹالپر بھی شریک ملزم ہیں اور کئی بار عدالت کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں