باتوں باتوں میں ۔۔۔ طارق بٹ ۔۔۔ ۔ اعتبار، ایفائے عہد اور عفو

۔۔۔ عنوان میں جن تین صفات کا ذکر ہوا یہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے دور میں مسلمانوں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں آج اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو یہ تینوں صفات عنقا ہیں اس جانب خصوصی توجہ دلائی مردان سے میرے محترم دوست محمد رفیق خان نے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہٗ کے دور کا ایک واقعہ ارسال فرما کر ۔ کمینگی اور بخل سے کام لوں گا اگر اس واقعہ کو اپنے تک محدود رکھوں اس لئے واقعہ قارئین کی نظر ۔

” دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں۔ امیرالمومنین یہ ہے وہ شخص جس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔ سیدنا عمر ؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں۔ کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟ وہ شخص کہتا ہے جی ہاں امیر المؤمنین ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔ پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اس کی سزا۔ سیدنا عمرؓ فیصلہ سناتے ہیں ۔وہ شخص کہتا ہے۔ اے امیر المؤمنین۔ اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں۔ مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تا کہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا۔ سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں۔ کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟ محفل میں موجود صحابہ ؓ پر ایک خاموشی سی چھا گئی۔

اس صورتحال سے خود حضرت عمر ؓ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ خود سیدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔ بالآخر سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو۔ نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے، اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ۔نوجوان اپنا آخری فیصلہ سنا دیتے ہیں۔حضرت عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں۔ اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس شخص کی ضمانت دے؟ حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں۔میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی ۔ سیدنا عمرؓ جانتے ہو اسے؟ ابوذرؓ نہیں جانتا اسے ۔ عمرؓ تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟ ابوذرؓ میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔ عمرؓ ۔ ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔ امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔

بالآخر تین دن تمام ہوتےہیں ۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) جمع ہونےکی منادی کی جاتی ہے۔ لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کا نفاذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔ حضرت ابوذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر حضرت عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔ مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذر ؓ مختصر جواب دیتے ہیں اور آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں آج معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہو کا عالم ہے۔ مغرب سے چند لمحات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے۔ بےساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔ حضرت عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔ اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ۔ امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے، بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے ایفائے عہد ہی اُٹھ گیا ہے۔ سیدنا عمرؓ نے ابوذرؓ کی طرف رخ کر کے پوچھا۔ ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟ ابوذرؓ نے کہا، اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔ سیدنا عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دونوں نوجوانوں سے پوچھا۔
کہ کیا کہتے ہو اب؟ نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس شخص کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اُٹھا لیا گیا ہے۔ سیدنا عمرؓ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔ اے نوجوانو۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ اے ابوذرؓ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔
اور اے شخص، اللہ تجھے اس ایفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”۔

کاش اے کاش کہ اعتبار ، ایفائے عہد اور عفو کی ایسی عظیم مثالوں سے میں ورگے منہ کالے بھی کوئی سبق حاصل کر لیں ۔۔۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں