باتوں باتوں میں ۔۔۔ طارق بٹ ۔۔۔ آرام وی آ جاسی۔۔

۔ صاحبان عقل و دانش آپ نے دیکھا کہ وہ جو ہواؤں میں اڑتے پھرتے تھے کیسے دھڑام سے زمین پر آ گرے۔ وہ کہ جنہوں نے وزارت عظمی تو پاکستان کی سنبھال رکھی تھی مگر رہتے زیادہ تر بیرون ممالک کے دورے پر تھے ہاں کبھی کبھار پاکستان کے دورے پر بھی تشریف لے آیا کرتے تھے ۔ وہ کہ جو پاکستانی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو ذرا برابر اہمیت دینے کو تیار نہ تھے البتہ برطانوی، امریکن اور یورپی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے سامنے بچھے چلے جاتے تھے آج اپنی اوقات پہ آ گئے اور ایک گمنام سے کالم نگار طارق بٹ کو استعمال کرتے ہوئے ایک علاقائی اخبار پنڈی پوسٹ میں میری حکومت کے اٹھائے جانے والے انقلابی اقدامات کے خلاف اپنے دل کی بڑھاس نکالنے پر مجبور ہو گئے ۔میری مجبوری کہ جواب آں غزل کے طور پر وہی ذریعہ استعمال کرنا پڑا جو میرے مخالفت نواز شریف نے کیا ۔

میں اپنا تعارف کیا کراوں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہوتی ہے میرے ملک کے عوام نے میرے دعووں اور وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے مجھے مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا ہے مگر اپنے مخالفین کی طرح میری صرف یہی پہچان نہیں بلکہ میں وزیراعظم بننے سے پہلے بھی دنیا کے گوشے گوشے میں عمران خان کی حیثیت سے اپنی ایک شناخت رکھتا تھا ۔ اپنے مخالفین کی طرح نہیں کہ سیاست میں آنے سے پہلے جنہیں ان کے محلے میں بھی کوئی پہچانتا نہ تھا ۔

اب آتے ہیں اصل مقصد کی طرف کہ میری بائیس سالہ تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستانی عوام نے گزشتہ 70 سالہ جمود سے جس طرح اپنے آپ کو باہر نکالا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستانی قوم تبدیلی چاہتی ہے وہ تبدیلی جس کے لئے اقدامات کا آغاز میں نے حکومت سنبھالتے ہی کرنا شروع کر دیا ہے ان اقدامات کے نتیجے میں آنے والی خوشحالی کے لئے قوم کو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ 70 سال کا گند صاف کرنے کے لئے کچھ وقت تو چاہیے ۔ ابھی تو میں اپنی ٹیم ہی مکمل نہیں کر پایا جونہی ٹیم مکمل ہو جائے گی میچ کا آغاز ہو جائے گا قوم صرف یہ ذہن میں رکھے کہ آپ کے کپتان نے ہارنا نہیں سیکھا حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں جیتنا میں نے ہی ہے۔

میرے مخالفین مجھے بھینسوں کی نیلامی کا طعنہ دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ان بھینسوں نے پورے وزیر اعظم ہاوس میں تعفن پھیلا رکھا تھا اسی لئے تو میں نے وزیر اعظم ہاوس میں رہنے کی بجائے سرونٹ کوارٹر میں رہنے کا فیصلہ کیا ان بھینسوں کے گوبر کی بدبو پڑوس میں موجود عدالت عظمی کی عمارت تک جاتی تھی جس کی وجہ سے حکومت اور عدلیہ کے تعلقات میں دراڑ پڑی رہتی تھی پڑوسیوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی لئے میں نے پہلا کام ہی یہی کیا کہ اس بدبو سے جان چھڑا لی آج دیکھ لیں ہم پڑوسیوں کے تعلقات کتنے خوشگوار ہیں ۔ مزید اقدامات کے طور پر میں نے وزیر اعظم ہاوس میں رکھے گئے سابقہ بادشاہ سلامت کے سینکڑوں ملازمین کی بھی چھٹی کروا دی ۔ اب ایک میں ایک نیک بخت خاتون ایک نعیم الحق اور ایک ہمارا شیرو کل چار نفوس وہاں رہائش پذیر ہیں کسی اور ملک میں اتنی سادگی اور کفایت شعاری کی کوئی ایک مثال آپ مجھے بتا دیں۔ نیک بخت خاتون اپنے میرے اور شیرو کے لئے بدست خود کھانا تیار کرتی ہیں شیرو بہت سمجھدار ہے وہ اپنی پلیٹ خود چاٹ کے صاف کر دیتا ہے میں بھی اپنی پلیٹ خود دھو لیتا ہوں کہ یورپ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ہر بندہ اپنی پلیٹ خود دھوتا ہے جہاں تک تعلق ہے نعیم الحق کا تو وہ باہر ڈھابے سے نان چھولے لے کھا لیتا ہے اسے نان چھولے بہت پسند ہیں اس طرح آپ نے دیکھا ہم کتنی بچت کر رہے ہیں اور تو اور سیکورٹی کے نام پر گذشتہ حکومتوں نے جو فوج ظفر موج یہاں پال رکھی تھی میں نے اس کی بھی چھٹی کروا دی ہے ایک شیرو ہی کافی ہے اگر ذرا سا بھی کھٹکا ہو تو وہ مجھے جگا دیتا ہے اور میں اپنی دونالی بندوق لے کر ایک چکر پورے وزیر اعظم ہاوس کا لگا لیتا ہوں کہ کہیں اتنے بڑے وزیر اعظم ہاوس کو خالی دیکھ کے کوئی منشا بم جیسا اس پر قبضہ ہی نہ کر لے ۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ نیک بخت خاتون نے وزیر اعظم ہاوس کے گرد ایسا حصار بنا دیا ہے کہ اب میرے علاوہ کوئی وزیر اعظم اس ہاوس میں داخل نہیں ہو سکتا ۔

میری سادگی اور کفایت شعاری پر مبنی حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں میں ایک تو ہے ہی زر کا پجاری اور دوسرے نام نہاد شریف ۔ انہوں نے میری معصوم قوم کا پیسہ جس بے دردی سے لوٹا اس کے ثبوت آجکل کبھی کسی فالودے والے ،کبھی کسی رکشے والے حتی کہ مرے ہوئے لوگوں کے اکاونٹس میں سے اربوں روپے کی صورت میں نکل رہے ہیں یقین کریں کہ میں ان کو چھوڑوں گا نہیں ان کے پیٹ پھاڑ کر بھی قومی دولت نکالنی پڑی تو نکالوں گا اب تو چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ خرابیوں کے ذمہ داروں کا قبروں سے نکال کر ٹرائل کیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ایک صفحہ پر ہیں ۔ جب میں کہتا ہوں کہ ان کی جائیدادیں اور اولادیں باہر ہیں تو یہ جوابا مجھ پر اولاد باہر ہونے کے طعنے شروع کر دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ میرے بچے صرف میرے بچے نہیں وہ جمائما کے بھی بچے ہیں اور اس اچھی خاتون نے بچوں کی تعلیم و تربیت اپنے ذمہ لے کر مجھے میری قوم کی خدمت کے لئے آزاد اور وقف کر دیا ہے اب میری ساری توجہ اپنی قوم کو اوپر اٹھانے پر مرکوز ہے قوم کو یقین رکھنا چاہیے کہ عمران آگیا ہے تو آرام وی آ جاسی۔۔۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں