شکیب جلالی وفات 12 نومبر

اردو شاعر۔ اصل نام۔ سید حسن رضوی۔ یکم اکتوبر 1934ء کو اترپردیش کے علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ لیکن والدہ کی حادثاتی موت نے سید حسن رضوی کے ذہن پر کچھ ایسا اثر ڈالا کہ وہ شکیب جلالی بن گئے۔ انہوں نے 15 یا 16 سال کی عمر میں شاعر ی شروع کر دی اور شاعری بھی ایسی جو لو دیتی تھی جس میں آتش کدے کی تپش تھی۔ شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہور آ گئے یہاں سے انہوں نے ایک رسالہ ” جاوید “ نکالا۔ لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ پھر ”مغربی پاکستان“ نام کے سرکاری رسالے سے وابستہ ہوئے۔ مغربی پاکستان چھوڑ کر کسی اور اخبار سے وابستہ ہو گئے۔
تعلقاتِ عامہ کے محکمے میں انہیں ایک ذمہ دارانہ ملازمت مل گئی۔ لیکن وہ ان سب چیزوں سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کی شاعری ویسے ہی شعلہ فشانی کرتی رہی اور پھر احساسات کی اس تپش کے آگے انہوں نے سپر ڈال دی اور محض 32 سال کی عمر میں سرگودھا اسٹیشن کے پاس ایک ریل کے سامنے کود کر خودکشی کر لی اور اس طرح شعلوں سے لہلہاتے ہوئے ایک شاعر کا خاتمہ ہو گیا۔ موت کے بعد ان کی جیب سے یہ شعر ملا:

تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
خودکشی کی ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شکیب کے باپ کی ذہنی بیماری کے باعث شکیب کی ماں نےبھی ٹرین کے نیچے آ کر خود کشی کرلی تھی۔ 10 سالہ شکیب نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ منظر دیکھا۔ اس منظر نے ساری زندگی اُن کا پیچھا نہ چھوڑا۔آخر اس نے بھی وہی راستہ اختیار کیا.
کلام
آکے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
مجھ کو گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سائہ دیوار پہ دیوار گرے
دیکھ کر اپنے در وبام لرز اٹھتا ہوں
میرے ہم سائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے
——

آگ کے درمیان سے نکلا

میں بھی کس امتحان سے نکلا

پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے

پھر دھواں گلستان سے نکلا

جب بھی نکلا ستارۂ امید

کہر کے درمیان سے نکلا

چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں

کوئی سایہ مکان سے نکلا

ایک شعلہ پھر اک دھویں کی لکیر

اور کیا خاکدان سے نکلا

چاند جس آسمان میں ڈوبا

کب اسی آسمان سے نکلا

یہ گہر جس کو آفتاب کہیں

کس اندھیرے کی کان سے نکلا

شکر ہے اس نے بے وفائی کی

میں کڑے امتحان سے نکلا

لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ

کام جس مہربان سے نکلا

————–