قربتوں کا پیاسا تحریر مرزا حامد بیگ

قربتوں کا پیاسا
تحریر مرزا حامد بیگ

شاہد مسعود

شاہد مسعود مزاجاً فردیات کا شاعر ہے۔ اس نے اپنے لخت لخت اشعار میں اپنے فکر کی تکمیل چاہی۔ اس کی شاعری کا رومانی منظر نامہ کچھ بہت زیادہ پھیلا ہوا نہیں ہے ، اور شاید یہی اس چیز کا باعث ہے کہ وہ اشعار کی اکائیوں میں اپنی فکری نہج اور مزاج سے مطابقت رکھنے والے لہجے کی دریافت ممکن بنا سکا ہے۔
ان اشعار میں زندگی کے بارے نکتہ نگاہ اپنی ہی ذات میں سمٹنے کا ہے۔ یہاں تحرک مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک پُرسکون ٹھہراؤ کی منزل آتی ہے۔ یہ مقام درویشی اور قناعت کا ظہور ہے۔
شاہد مسعود کے ہاں ماضی کے حوالوں کے ساتھ دوکردار بہت نمایاں ہیں۔ محض دو کردار جن کے درمیان زمانہ حائل ہے یا وہ شخص جسے ’’بُرا‘‘ کہہ لیں۔ اور اس خلیج کو مزید گہرا فطرت کی بے رحم طاقتیں کرتی ہیں۔
شاعر کی اونچی خود کلامی یا دوسرے سے دور کا مکالمہ مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کرنے کی بجائے زیادہ تر ماضی کے تلخ تجربات کا تجزیہ سامنے لاتا ہے۔ حال غیر متحرک ہے اور مستقبل غیر واضح دھندلا۔ یہ رومانی رسائی جذباتیت کا شکار نہیں ہو پاتی۔ یہاں پچھتاوا شاعر کو رومانی لحجے کے دیگر ہمعصر شعراء کے ساتھ گڈ مڈ کر سکتا تھا۔ لیکن یہاں رومان پر فلسفے کی چھوٹ پڑ رہی ہے۔جو شدید جذبات کے ٹوٹتے ہوئے بند پر پُشتے باندھ دیتی ہے۔ یہاں یہ بھی ممکن تھا کہ گلوگیر لہجہ شدید جذبات کے تلاطم کو راہ دیتا اور بالآخر شاعر سکون کا سانس لینے میں کامیاب ہو جاتا ۔ ایسا نہیں ہوا اس لیے کہ صورت حال تک رومانی/فلسفیانہ رسائی دو اور دو چار قسم کی سچائی بہرحال نہیں ہے۔ رندھے ہوئے گلے کی شاعری شاہد مسعود کو مروج رومانی بہاؤ کے سپرد کر سکتی تھی۔ جس سے وہ بال بال بچا ہے۔ یہاں اسے اس کے اپنے مزاج اور لہجے نے سہارا دیا ہے یا منطق سے گہرے یارانے نے ؎
وہ نفرتیں تھیں ہواؤں میں روشنی کے خلاف
اگر چراغ نہ بجھتا تو گھر گیا تھا مرا
یہاں شاعر کا لہجہ یقیناً ارد گرد کی بھرپور رومانی آوازوں سے متاثر نظر آتا ہے۔ لیکن شعری رویہ اور اس کے ساتھ شاعر کا نباہ اس شعر میں بھی مروج ڈگر سے یکسر مختلف ہے۔
ایک اور بات جو شاہد مسعود کے ہاں بہت نمایاں اور منفرد انگ لیے ہوئے ہے وہ ’’ناقابلِ شکست عالمی سچائیوں‘‘ کا بیان ہے۔ یہ محض عالمی سچائیوں کی پیش کش نہیں ہے۔ اس لیے میں ’’ناقابلِ شکست‘‘ کی تخصیص سامنے لایا ہوں۔ وہ یُوں کہ آج بیشتر عالمی سچائیاں اپنے مفاہیم گم کر بیٹھی ہیں۔ سو شاہد مسعود کے بیان کرنے کو ’’تاحال ناقابلِ شکست سچائیاں ہی رہ گئی ہیں۔ لیکن وہ ہیں کتنی؟؎
ابھی امکاں نہیں کچھ حادثے کا
ابھی منزل سے کافی دور ہوں میں
اور
میں کھڑا دیکھتا رہا اُس کو وہ مری دسترس سےباہر تھا
ممکن ہے آنے والا وقت اس ناقابلِ شکت کو بھی شکست دے دے۔ پھر شاید منزل سے پہلے حادثہ ممکن ہو سکے گا اور کوئی شے ایسی نہ رہے گی جو دسترس سے باہر ہو۔ جب تک یہ سب ممکن نہیں ہو جاتا شاہد مسعود کے اشعار دیکھتے چلیں۔

فردیات

میں ایک لمحہ انمول ہوں جہاں والو
کوئی گلے سے لگا لے گزرتا جاتا ہوں

چور من کے غم کدے میں صبح تک پھرتے رہے
دل کے دروازے کی کنڈی رات بھر ہلتی رہی

اس کے استقبال کو شاہد سجا رکھا ہے گھر
ہم نے اسٹیشن پہ شب کاٹی تھی اس کے شہر میں

اس سے پہلے کہ یہاں بھی تیرے تیور بدلیں
میز پر سے تری تصویر ہٹا دی ہم نے

آ ہی بسے ہیں آپ مری روح میں اگر
مجھ کو مرے وجود سے باہر نہ پھینکیے

اس کو اتنی بھیڑ میں نظروں نے میری پا لیا
میں اکیلا تھا مگر اس نے نہ پہچانا مجھے

یاد میری ذہن کے سب راستوں سے آئے گی
سوچ بن کے تجھ پہ میں اتنا گراں ہو جاؤں گا

تنہائیوں کی بھیڑ میں گم ہو گیا ہوں میں
اب تو قریب سے بھی مجھے چیخ کر پکار

الجھ گئے ہیں کچھ اس طرح شہر کے رستے
کہ ڈھونڈتا ہوں مگراپنا گھر نہیں ملتا

وہ نفرتیں تھیں ہواؤں میں روشنی کے خلاف
اگر چراغ نہ بجھتا تو گھر گیا تھا مرا

ہم بھی کیا سادہ تھے، چاہا کہ ہمیں کو چاہے
اور وہ شخص جسے سارا زمانہ چاہے

تو پلٹ کر تو دیکھتا کہ تجھے
دور تک دیکھتا رہا ہے کوئی

میں نے کہا کہ آ تجھے جاں میں اتار لوں
اس نے کہا کہ مجھ کو ذرا دور ہٹ کے دیکھ

نمودِ صبح پہ ناحق نہ تہمتیں آئیں
سحر قریب ہے آؤ کہ خود ہی بجھ جائیں

ابھی امکان نہیں کچھ حادثے کا
ابھی منزل سے کافی دور ہوں میں

وقت لا پرواہ ہے کم عمر بچّے کی طرح
جس جگہ سے شے اٹھائے اس جگہ رکھے نہیں

مجھ سے بڑھ کر اب اُن سے ملتا ہے
جن سے میں نے اسے ملایا تھا

میں کھڑا دیکھتا رہا اُس کو
وہ مری دسترس سے باہر تھا

میں کہ لکھتا رہا درختوں پر
اپنا اور تیرا نام جنگل میں

اس سے باتیں کروں تو دنیا کی
اور ہر اک سے بیان اس کا ہے

عمر بھر سوچتے رہتے ہیں، مگر سوچیں تو
عمر بھر سوچتے رہنے سے بھی کیا ہوتا ہے

آنکھ لگنے پہ جو پل بھر میں گزر جاتی ہے
جاگئے گر تو وہی رات نہ کٹنے پائے

تو مرے راستے سے گزرا تھا
میں ترے راستے میں بیٹھا ہوں

تو کسے روز یاد کرتا ہے
تجھ کو شاہدؔ بھلا دیا کس نے

تیرا ملنا بھول گیا ہوں
تیرا جانا یاد رہا ہے

ڈوبتے دن کی لاش پر شاہد
شور کتنا تھا شام جنگل میں
بشکریہ نیرنگ خیال راوالپنڈی (گولڈن جوبلی نمبر)