آج کی صورت حال خلیل الرحمن چشتی

آج 22اگست 2022ء ہے۔
ملک میں بارشوں کی کثرت نے تباہی مچادی ہے۔ 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔
مکانات گر رہے ہیں۔ مسجدیں منہدم ہو رہی ہیں۔ اللہ کا عذاب اوپر سے بھی ہے اور قدموں کے نیچے بھی۔
خشک وتر کا عذاب و فساد انسانوں کی اپنی کمائی ہے۔
ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس ( الروم : 41)
معیشت کا بال بال مقروض ہے۔ قرض بھی سودی اور قوم شدید دباؤ کا شکار ہے۔
آئی ایم ایف ہماری مجبوریاں سمجھتا ہے۔ قرض دینے سے پہلے ہر چیز منوانا چاہتا ہے۔
جوہری پروگرام پر مغرب کی نظر ہے۔
حتمی معاہدے کو لٹکا کے رکھا ہے۔
آئی ایم ایف کی غلامی میں اصل کردار مغرب کا پروردہ عمران خان ہے ، جو اب مسیحا کا روپ دھارے جلوہ گر ہے۔

شرح سود 15 % ہوچکا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ روپیہ کم از کم 14% اور گرے گا۔ روپیے میں سرمایہ کاری کون کرے گا۔
ادھر سیاست ایک تنگ گلی میں پہنچ گئی ہے۔ اسلام اور پاکستان سے سچی محبت رکھنے والے اہل علم پریشان ہیں ، جن کی نظر قرآن و سنت، اخبار عالم، تاریخ عالم اور پاکستان کی گزشتہ 75 سال کی تاریخ پر ہے۔
مغرب مسکرا رہا ہے۔
انگریزی میں اسے Catch 22 کہتے ہیں۔
ہر دو صورتوں میں موت۔

اک سمت ہے صحرا تو ہے اک سمت سمندر
پائی بھی تو جینے کی سزا پائی کہاں ہے

دونوں طرف مغرب نواز۔
دونوں طرف سیکیولر۔
دونوں طرف موقع پرست۔
دونوں طرف طالع ازما۔
دونوں طرف بد کردار۔

تیسرا آپشن مارشل لا ہے۔ وہ بھی مغرب کو پسند ہے۔ انہیں ایک آدمی سے بات کرنی پڑتی ہے۔ مغرب اپنی پسند کے ڈکٹیٹروں کو نہ صرف پسند کرتا رہا ہے بلکہ انہیں نوازتا رہا ہے۔ اس کی مثالیں بہت ہیں۔ عبدالفتاح السیسی کو چھوڑیے ، خود ایوب خان کو دیکھیے۔ 1952 سے سازشیں کرتا رہا۔ پھر 1958 میں خود مسلط ہوگیا۔ دس سال امریکہ کی خدمت میں مصروف رہا۔ اسی کی وجہ سے ملک ٹوٹا۔ اب اس کی ذریت عمران خان کے ساتھ ہے۔

عمران خان وہ بد زبان ہے ، جس نے بد زبانوں کی ایک نسل تیار کی ہے۔
اگر اقتدار دوبارہ اس کو مل جائے تو ملک مزید ٹوٹنے کا خدشہ ہے۔

یہ ذوالفقار علی بھٹو ثانی ہے۔ نا اہل بھی ہے ۔ مغرب نواز بھی ہے۔ شاطر بھی ہے۔ دجال و کذاب بھی ہے۔

یہ اسلام دشمن ، اسلام کا نام لے کر اسلام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس نے اپنے ہونے چار سالہ دور میں اسلام کے خلاف قانون سازی کی ہے۔
یہ مغرب دوست ، امریکی سازش کا کارڈ کھیل کر قوم کو آلو بناتا ہے۔

یہ نرگسیت کا ایک ذہنی مریض narcissist ہے. یہ فرد واحد ہے ، جو خود کو معیار اور عقل کل اور معصوم Infallible سمجھتا ہے۔
یہ متکبر دوسروں کی تحقیر کرتا ہے۔ مذاق اڑاتا ہے۔ نام رکھتا ہے۔

اس کی بد زبانی کے شیدائی علماء اور دانشور بھی ہیں ، جو پاکستان کے طویل فوجی ادوار سے تنگ آجکے ہیں۔ وہ بھی اس دجال فریبی کو مسیحا سمجھتے ہیں ۔ یہ بہت بڑی آفت ہے۔

وہ علی الاعلان خانہ جنگی کی دعوت دے رہا ہے۔
عمران خان کے مخالفین بالکل اس کی طرح کے ہیں، لیکن گفتگو میں وہ جادو نہیں۔
ان من البیان لسحر

ادھر شیخ رشید تو ادھر ثناء اللہ۔
ادھر فواد تو ادھر مریم اورنگ زیب۔
ادھر مراد سعید تو ادھر طلال۔
سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔

عمران خان کے اسلام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی اسلام کی طرف واپسی جنید جمشید ، کیٹ اسٹیونس، مالکم ایکس، یوسف یوحنا ، سعید انور وغیرہ کی طرح واپسی نہیں ہے۔ یہ لوگ اسلام کی طرف آئے تو مسجد اور علماء سے جڑ گئے۔ عمران نہ تو مسجد سے جڑ سکا نہ علماء سے۔ بلکہ مغرب اس کو لکھ کر دیتا ہے کہ “محمد عبدہ” کے اسلام کی بات کرو۔

عمران کے مخالفین کچھ ایسے ہیں جو اسی کی طرح بد کار و بد زبان ہیں۔ کچھ شرمیلے ہیں۔ کچھ با حیا ہیں جو اس کی زبان نہیں بول سکتے ۔
عمران گفتار کا غازی ہے۔
مغرب نے اس کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ملکوں کو توڑنے اور خانہ جنگی میں مبتلا کرنے کے لیے اسی قسم کے “سر پھرے” اور پاگل استعمال کیے جاتے ہیں۔
عمران بول سکتا ہے۔ کچھ کر نہیں سکتا ۔
اس سے تخریب ممکن ہے، تعمیر نہیں۔
و ان یقولوا تسمع لقولھم
“جب تم انہیں سنو تو سنتے ہی رہ جاؤ” ایسی لچھے دار گفتگو ہوتی ہے۔
اس نے مغرب سے خطیر رقم جمع کرکے میڈیا اور پروپگینڈے پر صرف کی ہے۔
نئی نسل اب موبائیل فونز کی اسیر ہے۔ اس نے اس کا استعمال بڑے مکارانہ کامیاب طریقے سے کیا ہے۔ وہ دنیا میں مقبول ہے۔

کیا مارشل لا میں خیر ہے ؟
مارشل لا آتا ہے تو مغرب اور خوش ہوجائے گا۔ فورا پابندیاں لگ جائیں گی۔
ڈالر کی اڑان ہوگی۔انسانی حقوق کا واویلا ہو گا۔ مارشل لا نے ماضی میں کیا دیا ؟

کیا عارضی مارشل لا بہتر ہوگا ؟
سابقہ تجربہ کہتا کہ تین ماہ کے لیے آنے والے گیارہ سال تک دندناتے رہے۔

فورا انتخابات کا مطلب ملک کو اسی دلدل میں دوبارہ جھونک دینا ہے۔ یعنی وہی نا اہل کی حکومت۔

کیا قومی حکومت حل ہے ؟
صدر حکومت عارف علوی گفتگو کی بات کرتے ہیں۔ لیکن عمران مخالفین سے بات نہیں کرنا چاہتا۔
قومی حکومت ایک بہترین تجویز ہے۔

عمران خان خود کو ایسا موسی سمجھتا ہے ، جس کے لیے فرعون کے ساتھ بات کرنے میں بھی کسر شان ہے ؟
میں نے اپنی ناقص عقل کے مطابق اس مسئلے پر جتنا غور کیا یہی بات سوجھی کہ آج پاکستان کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے واحد حل عمران خان کی موت ہے۔ اللہ اس پر قادر ہے۔ فوج کو اس کی موت کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے۔
اللہ سے مسلسل استحکام کی دعائیں مانگتا رہا ہوں اور مانگ رہا ہوں۔

فوج کے جرنیلوں کو اب یہ اچھی طرح احساس ہو جانا چاہیے کہ ان کا کردار ماضی میں بہت منفی رہا ہے۔ انہیں سچی توبہ کی ضرورت ہے۔
جرنیلوں نے اپنے مفادات کے لیے ہمیشہ پاکستان کے ہر ادارے کو برباد کیا۔

1- عدلیہ کے ادارے کو برباد کیا ۔

2- سیاسی جماعتوں کے اداروں کو برباد کیا۔ ہر پارٹی کو توڑتے رہے۔ وہ کسی کو مضبوط دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ سیاست دانوں کو بے وفائی کی تربیت دی۔

4- الکشن کمیشن کے ادارے کو برباد کیا۔ جعلی ریفرنڈم کراتے رہے۔ ایوب اس کا موجد تھا۔

5- نیب کے ادارے کو برباد کیا۔

6- انتظامیہ اور بیوروکریسی کو برباد کیا۔

7- میرٹ اور اہلیت کا خون کیا۔

8- صحافت اور میڈیا کا ادارہ برباد کیا جاچکا ہے۔ نہ یہاں شائستگی ہے نہ شرافت۔ نہ دین نہ اسلامی اخلاقیات۔

8- سچے حق پرست علماء گوشہ نشین ہیں۔ چپ میں ہی خیر سمجھتے ہیں۔ تنہائی میں دعاؤں کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں۔

یہ وقت توبہ ہے۔
لیکن
توبہ کون کرے ؟ استغفار کون کرے ؟
کوئی غلطی ہی تسلیم کرنا نہیں چاہتا۔

نہ جرنیل توبہ کرنا چاہتے ہیں۔
نہ جج توبہ کرنا چاہتے ہیں۔
نہ سیاست دان۔
نہ عمران خان ، نہ زرداری ، نہ شریف۔
نہ بیوروکریسی نہ انتظامیہ۔
یہاں خوش صرف ملک ریاض جیسے بد بخت ہیں ، جو سب کو خوش رکھتے ہیں۔
جس شخص کی نگاہ قرآن مجید پر گہری ہے ، وہ قرآن میں بیان کردہ قوموں کے عروج و زوال کے اصولوں کو سمجھ لیتا ہے اور مستقبل کا نقشہ دیکھ لیتا ہے۔
جس مخلص و متقی کو اللہ کے کلام اور سنت نبوی سے بصیرت مل جائے ، وہ کسی کشف کے بغیر بھی انجام نظر میں رکھتا ہے ۔

توبہ و استغفار کیجے۔
شاید عذاب ٹل جائے۔
کچھ مزید مہلت مل جائے۔
یوخرکم الی اجل مسمی

کون سنتا ہے فغانِ درویش ؟
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

خلیل الرحمٰن چشتی
22اگست 2022ء