غازی علم دین شہید


میانوالی جیل کی جنوبی دیوار کے ساتھ جیل کی اپنی زمین پر ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، یہ ان بدنصیب قیدیوں کی آخری آرام گاہ ہے جو لاوارث مر جاتے ہیں۔ لیکن اسی لاورث قبرستان کو غازی علم دین شہید کا پہلا مدفن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 31 اکتوبر 1929 کو جیل کی ڈیوڑھی سے جب غازی کی میت باہر لائی گئی تو میانوالی کی عوام جو پچھلے کچھ روز سے جیل کا محاصرہ کئے بیٹھی تھی، رسول اکرم کے جانثار عاشق کی میت کے حصول کیلئے لپکی، چھینا جھپٹی میں ہنگامہ ہوگیا، انگریز افسر زخمی ہوا، لیکن عوام کامیاب نہ ہو سکے، اور انگریز حکومت نےخوفزدہ ہو کر جلدی میں میت تدفین کی ضروری رسومات یعنی جنازہ وغیرہ کے بغیر ہی جیل کے کمبل میں لپیٹ کر اسی قبرستان میں دفنا دی اور اس جگہ کو عاشق رسول کی میت 14 نومبر 1929 تک امانت رکھنے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ مجھےاس قبرستان اور میت سے تہی قبر کی تفصیل ملک حفیظ الرحمان سے یوں معلوم ہوئی کہ غازی شہید کے کچھ رشتہ دار اس جگہ کی زیارت کیلئے 1985 میں لاہور سے آئے تھے اور حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل شہید کےمہمان ہوئےتھے اور وہ گائیڈ کے طور پر انہیں اس جگہ پر لے کر آیا تھا۔ یہ اب ایک خالی قبر کی جگہ تھی، اس اداس دل کی طرح جسے بہت بڑاخزانہ مل کر چھن گیا ہو ۔ملک حفیظ الرحمان کا اس وقت جیل روڈ لاہور پر کاروں کا بہت بڑا شو روم ہے۔جنازے کے بغیر تدفین پر سارے ہندوستان خاص طور پر لاہور کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے ۔ علامہ محمد اقبال، میاں عزیزالدین اور میاں امیرالدین کی سربراہی میں یہ کوشش آخر کامیاب ہو گئی اور علامہ اقبال کی گارنٹی کہ جنازے پر کوئی شورش نہیں ہوگی، انگریز حکومت، غازی شہید کی میت دینے پر رضامند ہو گئی۔ محمد اکبر خان خنکی خیل بتاتے ہیں کہ مجھے ڈی سی میانوالی نے بلایا اور کہا، کہ قبر کشائی کرنی ہے، آپ خوشبو کا بندوبست کریں۔ یہ قبر کشائی ٹھیک پندرہ دن کے بعد ہو رہی تھی ۔ محمد اکبر خان مرحوم بتاتے ہیں، میں نے اسے کہا، ہمیں یقین ہے کہ غازی کی میت محفوظ ہوگی۔ یہ گفتگو اور باقی تفصیل میں نے انہی کی زبانی سنی ہے اور یہ امانت آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں کمبل میں لپٹی پندرہ دن کی میت پھول کی طرح ترو تازہ تھی اور خوشبو استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ غازی کے چہرے پر دائیں یا بائیں، سائیڈ میں بھول رہا ہوں، لعاب کی ایک چھوٹی سی لکیر تھی جو گال تک گئی تھی۔ میت کا یہ رنگ دیکھ کر سب دنگ رہ گۓ۔ ہمارے ایک ٹیچر ملک اللہ یار ریٹائر فوجی تھے، انہوں نےگورنمنٹ ہائئ سکول میانوالی کی مارننگ اسمبلی میں ہمیں بتایا تھا کہ اس وقت غازی کا اس وقت ایک گھٹنا ٹیڑھا ہورہا تھا، ٹانگ کو ذرا کھینچا گیا تو گھٹنا سیدھا ہو گیا ۔یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ غازی شہید کا پہلا جنازہ یہیں میانوالی میں ہی پڑھا گیا۔ ان چند لوگوں کی امامت مولوی مصطفٰے خان زادے خیل نے کی تھی ۔ میرا یہی محلہ ہے، زادے خیل میرے سسرالی عزیز ہیں لیکن میں مولوی مصطفےٰ خان کا سراغ نہیں لگا سکا کہ وہ کون تھے اور کہاں رہتے تھے۔ اس قبر کشائی کے لیے لاہور سے مجسٹریٹ مرزامہدی حسن اور سید مراتب علی شاہ 13 نومبر کو آئے تھے، 14 کو قبر کشائی ہوئی اور ریلوے نے میانوالی سے لے کر یہ امانت 15 نومبر کو لاہور میں علامہ اقبال کے سپرد کر دی ۔ محمد اکبر خان اس ٹرین کے ساتھ گۓ تھے، یہ ٹرین مال گاڑی کے ڈبوں پر مشتمل تھی جو گورکھا فوجیوں سے بھرے ہوۓ تھے۔ محمد اکبر خان کا یہ فقرہ ابھی تک میرے کانوں میں گونجتا ہے کہ اس مال گاڑی میں غازی صاحب کے ساتھ واحد میں ہی سویلین تھا۔