مائنڈ سائنسسز اوربابے( سيدقاسم علی شاہ )


مائنڈ سائنسسز اوربابے( سيدقاسم علی شاہ )

زندگی گزارنے کے لیے جتنے سوالات ضروری ہیں ان میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ” میں کون ہوں ؟”انسان کی تمام پریشانیاں اور الجھنیں اسی سوال کا جواب نہ ملنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ ہر زمانے کے لوگ اس سوال کے جواب کی تلاش میں رہے۔ اگر صوفیائے کرام کو پڑھا جائے تو وہاں پر بھی ہمیں یہی سوال نظر آتا ہے حضرت بابا بلھے شاہؒ فرماتے ہیں “بلھا کی جانا میں کون۔” اسی سوال کے جواب کی تلاش میں راؤ محمد اسلم صاحب نے کئی ملکوں کا سفر کیا۔ انہوں نے سری لنکا سے مائنڈ سائنسسز میں پی ۔ایچ، ڈی کر رکھی ہے۔مائنڈ سائنسسز اور بابوں کے حوالے سیدقاسم علی شاہ کے ساتھ ایک نشست میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے سیکھنے کی غرض اور اپنے آپ کو جاننے کے لیے مائنڈ سائنسسز کو منتخب کیا۔ اگر ہم اپنے آئمہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ انہوں نے اس سوال کے جواب اور سیکھنے کی غرض سے ایک شہر سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے اور تیسرے سے چوتھے شہر کی طرف سفر کیا تاکہ اپنی ذات کا ادراک ہو اور اپنے آپ کو جانا جائے۔
انسان کو چوبیس گھنٹوں میں قدرت کی طرف سے ساٹھ ہزارخیالوں کا تحفہ ملتا ہے یہ خیال مختلف قسم کے ہوتےہیں ۔ انسان نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کس خیال کو رکھے کس کوچھوڑے اور کس پر عمل کرے۔ایک خیال کی مدت تین سے تیرہ سیکنڈ تک ہوتی ہے پھر نیا خیال آتا ہے جیسے ہی نیا خیال آتا ہے پہلا خیال چلا جاتا ہےصرف وہی خیال انسان کے ساتھ رہتا ہے جس کے ساتھ اس کے جذبات منسلک ہو تے ہیں وہ جذبات چاہے خوشی کے ہوں یا غمی کے۔ وہ لوگ جو یہ سوال کرتےہیں کہ خیالات ہمارے کنڑول میں نہیں رہتے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے خیالات کو اپنے جذبات کے ساتھ منسلک کریں جب وہ ایسا کریں گے تو پھر انہیں جذبات پر کنٹرول بھی حاصل ہو جائے گا اور دوبارہ اسی طرح کے خیالات بھی آئیں گے۔ خیالات دماغ میں آتے ہیں اور دماغ انسان کا ملازم ہے لیکن عام طور پر دیکھیں تو انسان اپنے دماغ کے غلام بنے ہوتے ہیں اور پھر دماغ میں جس طرح کے مرضی خیال آئیں وہ اپنے مطابق چلاتا ہے اور عام طور پر وہ خیال منفی ہوتےہیں جس کی وجہ سے ہمیں معاشرے میں زیادہ تر لوگوں کا رویہ منفی نظر آتا ہے۔ جو صوفیائے کرام ہوتے ہیں وہ اپنے دماغ کو آقا نہیں بننے دیتے بلکہ اسے اپناملازم رکھتےہیں جس کی وجہ سے ا نہیں اپنے خیالات پر کنٹرول ہوتا ہے اور ان کا رویہ بھی مثبت ہوتا ہے ۔ حضرت میاں محمد بخشؒ فرماتےہیں :
علم خاطردنیا اتے آون ہے انساناں
سمجھ علم وجود اپنے نوں نئی تے وانگ حیواناں
زندگی گزارنا ایک فن ہے پہلے یہ فن گھر کے بڑے لوگ اور ڈیروں پر بیٹھے بابے سکھاتے تھےاب اسی فن نے سائنس کی شکل اختیار کر لی ہے۔ دنیا میں اس حوالے سے بہت سے پروگرام کروائے جاتے ہیں انہی میں ایک پروگرام این۔ایل ۔پی ” نیورو لینگویسٹک پروگرامنگ” یہ پروگرام بتاتا ہے کہ سوچنا کیسے ہے، بات کیسے کرنی ہے، عمل کس طرح کرنا ہے وغیرہ وغیرہ اس سارے علم کو مائنڈ سائنسز کہا جاتا ہے ۔ 1923ء میں امریکہ میں ایک تحقیق ہوئی انہوں نے طالب علموں کو ٹاسک دیا کہ آپ نے سات شعبوں کے کامیاب ترین لوگوں پر تحقیق کرنی ہے ۔ جب تحقیق مکمل ہو گئی تو پتا چلا کہ ا ن میں کئی لوگ مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں ،ڈیپریشن کے مریض ہیں ان لوگوں نے پیسہ کمانا تو سیکھ لیا تھا لیکن زندگی کیسے گزارنی ہے یہ نہیں سیکھا۔زندگی گزارنا پیسے کمانے سے مختلف چیز ہے بلکہ یہ ایک سائنس ہے۔ بچہ پیدا ہو نے کے بعد سب سے پہلے آنکھیں کھولتا ہے پھر چلنا سیکھتا ہے پھر مینج کرنا سیکھتا ہے پھر وہ عمل کی طرف آتا ہے۔ انسان اچھا ہو یا برا،کامیاب ہو یا ناکام اس میں جو اصل بات دیکھی جاتی ہے وہ اس کا رویہ ہوتا ہے ۔رویے کی تبدیلی اندر سے آتی ہے نیورو لینگویسٹک پروگرامنگ انسان کے اندر کو تبدیل کرتی ہے جب اندر تبدیل ہوتا ہے تو پھر رویے بدلتے ہیں ۔
انسان کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے روحانی ،دماغی ،جذباتی اور جسمانی ۔انسان صرف اپنے جسم کو ہی سب کچھ تسلیم کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ مسائل کا شکار ہوتاہے حالانکہ ہر حصے کا ایک اپنا کام ہے اور انسان کو باقی حصوں کو بھی تسلیم کرنا چا ہیے ۔رشتوں کا تعلق جذبات کے ساتھ ہے بعض لوگ بہت جذباتی ہوتے ہیں اور اپنے جذبات کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھاتے ہیں اگر وہ سلوا میتھڈ تیکنیک کا استعمال کریں تو اپنے جذبات کو کنٹرول کر سکتےہیں ۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب سونے لگیں تو ایک گلاس پانی کا لیں اور اپنی آنکھوں کو 20 ڈگری اوپر کر کے پانی کو پی لیں اس سے پہلے اپنے دماغ کو پیغام دیں جو خواہشیں ہوں اس کا اظہار کریں جب پانی پی لیں اور سو جائیں کسی سے گفتگو نہ کریں کچھ عرصہ ایسا کرنے سے تبدیلی آجائے گی۔
کاروبار سٹریس والا کام ہے جو لوگ کاروبار سے منسلک ہوتے ہیں و ہ خود ہی اپنے ملازم ہوتے ہیں انہیں کسی باس کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ اپنے آپ کا سامنا کرنا ہوتا ہے جب بندہ خود اپنا باس ہو تو پھر زیادہ سٹریس ملتی ہے اس سٹریس سے نکلنے کا حل یہ ہے کہ سب سے پہلے بندے کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کن صلاحیتوں سے نواز ا ہے پھر ان صلاحیتوں کے مطابق کام کرنا چاہیے اس سے سٹریس کم ہوگی۔ نپولین ہل کہتاہے کہ انسان جو کچھ سوچ سکتا ہے وہ اسے حاصل بھی کر سکتا ہے۔جس کو ٹیم سے کام لینا نہیں آتا اسے کاروبار نہیں کرنا چاہیے اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ جاب کر لے ۔ دنیا میں جتنے بھی کاروباری لوگ ہیں انہیں اپنی ٹیم سے کام لینا آتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے کام میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ جب کام مختلف ہاتھوں میں تقسیم ہو تو پھر سٹریس نہیں ہوتی ۔ سٹریس سے بچنے کے لیے دوپہر کے وقت کھانے کے بعد تھوڑی دیرکے لیے قیلولہ ضرور کرنا چاہیے یہ قیلو لہ سٹریس کو ختم کر دیتا ہے ۔ جب بندہ کام کر رہا ہوتا ہے تو اس سے بہت سار ا ڈیٹا آر ہا ہوتا ہے جس کو وہ مینج کر رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اگر تھوڑی دیر کے لیے آرام کر لیاجائے تو وہ ڈیٹا دماغ میں جمع ہو جاتا ہے اور تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے ویسے بھی قیلولہ حضور اکرمﷺ کی سنت ہے۔ اگر کوئی شخص صبح نو سے شام پانچ بجے تک کام کرتا ہے اسے چاہیے آدھ گھنٹہ بعد ایک چھوٹا سا وقفہ ضرور کرے اور اپنی آنکھیں بند کر کے لیٹے اس دوران کوئی سوچ نہیں ہونی چاہیے اس سے سٹریس ختم ہو جائے گی۔
انسانی دماغ کے دوحصے ہیں دایاں اور بایاں ۔ بائیں حصے میں انسان کا ماضی ہوتا ہے انسان نے زندگی میں جو کچھ بھی کیا ہوتا ہے وہ اس حصہ میں ہوتا ہے جبکہ جو بایاں حصہ ہے اس میں انسان کا مستقبل ہے انسان نے جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ اس حصہ میں ہوتا ہے ۔ انسانی دماغ کا یہ مسئلہ ہے کہ یا تو یہ ماضی میں رہتا ہے یا پھر مستقبل میں یہ لمحہ موجودہ میں نہیں رہتا جو لوگ لمحہ موجود میں رہتے ہیں وہ صاحبِ حال ہوتے ہیں۔ جتنے بھی صوفیائے کرام ہیں وہ لمحہ موجود میں رہتے ہیں انہوں نے اپنے دماغ کو ایکٹیو کیا ہوتا ہے ۔ دماغ کو ایکٹیو کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی کھلی جگہ بیٹھا جائے جہاں پر کوئی شور نہ ہوں ،آنکھیں بند کر کے اپنے اور کائنات کے بارے میں سوچیں اس سے دماغ ایکٹیو ہو جائے گا صوفیا بھی اسی طرح غوروفکر کیا کرتے تھے ۔ ایک وقت تھاجب ڈیرے ہوتے تھے جہاں پر بڑے لوگ بیٹھا کرتے تھے جو لوگوں کے دکھ درد کو سنا کرتے اور ان کو ان کا حل بتاتے تھے جس سے ان کے سٹریس میں کمی ہوتی تھی اس وقت کسی نفسیات کے ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اہل علم اور دانشور وں کی نشستیں ہوتی تھیں جیسے داستان سرائے میں باباجی اشفاق احمد او ر حضرت واصف علی واصف ؒ کی نشستیں یہاں سے لوگوں کو علم اور وذڈم ملتا تھا ۔ اب نہ تو وہ بابے اور نہ ہی وہ نشستیں آج اس خلاء کو پر کرنے کی ضرور ت ہے اس حوالے سے میں نے بھی بیٹھک بنائی ہے جہاں پر لوگوں کو مائنڈ سائنسز کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور مائنڈ سائنسز کے ذریعے ان کے مسائل پر بات کی جاتی ہے اس کے علاوہ باباجی اشفاق احمد کی طرز پر دوبارہ اس طرح کی نشتیں آباد کرنے کی کوشش ہے تاکہ لوگوں کو وزڈم ملے اور ان کے رویوں میں تبدیلی اور پرامن معاشرے کا قیام ہو ۔