شائستہ اکرام اللہ وفات 10 دسمبر

بیگم ڈاکٹر شائستہ سہروردی اکرام اللہ ( Shaista Suhrawardy Ikramullah) (پیدائش: 22 جولائی، 1915ء – وفات: 10 دسمبر، 2000ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کی نامور مصنفہ، تحریک پاکستان کی مشہور خاتون رہنما، پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کی رکن اور سفارت کار تھیں۔
شائستہ اکرام اللہ 22 جولائی، 1915ء کو کلکتہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ بیگم شائستہ سہروردی نے لوریٹو کالج، کلکتہ سے تعلیم حاصل کی ۔

ان کے والد حسان سہروری برطانوی وزیر ہند کے مشیر تھے۔1932ء میں ان کی شادی مشہور سفارت کار محمد اکرام اللہ سے ہوئی جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ شادی سے پہلے ہی شائستہ اختر سہروردی کے نام سے افسانہ لکھا کرتی تھیں اور ان کے افسانے اس زمانے کے اہم ادبی جرائد ہمایون، ادبی دنیا، تہذیب نسواں اور عالمگیر وغیرہ میں شائع ہوتے تھے۔ 1940ء میں انہوں نے لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی، وہ اس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں ۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع “اردو ناول اور افسانے کی ترقی” تھا، اس میں انھوں نے اردو اب کا ناقدانہ جائزہ لیا۔

شادی اور بچے
بیگم شائستہ سہروردی نے محمد اکرام اللہ سے 1933 میں شادی کی ۔ ان کے چار بچے تھے:

انعام اکرام اللہ
ناز اشرف
سلمی سبحان
شہزادی ثروت (اردن)
سیاسی کیریئر
تحریک پاکستان کے دنوں میں انہوں نے جدوجہد آزادی میں بھی فعال حصہ لیا اور بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور مراکش میں سفارتی خدمات انجام دیں۔شادی کے بعد پردہ چھوڑنے والی پہلی ہندوستانی مسلم خواتین میں سے ایک تھیں ۔ محمد علی جناح کے کہنے پر وہ سیاست میں شامل ہوئیں۔ وہ مسلم ویمن اسٹوڈنٹ فیڈریشن اور آل انڈیا مسلم لیگ ویمن ذیلی کمیٹی کی لیڈر تھیں- 1945 میں انھوں نے محمد علی جناح کے کہنے پر حکومت ہند کی پیسفک ریلیشن کانفرنس میں شرکت کی آفر ٹھکرا دی۔

وہ 1946 کی آئین ساز اسمبلی میں منتخب ہوئیں مگر مسلم لیگ کی وجہ سے شامل نہ ہوئیں ۔ 1947 میں وہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی دو خواتین اراکین میں سے ایک تھیں ۔ انھوں نے اقوام متحدہ میں مندوب کی حیثیت سے وقت گزارا اور انسانی حقوق کے عالمی مسودے پر کام کیا اور ساتھ میں نسل کشی کے خلاف کنونشن پر بھی کام کیا ۔ وہ مراکو میں 1964 سے 1967 تک پاکستان کی سفیر رہیں –

بیگم شائستہ اکرام اللہ کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ وہ اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال اور بنگلہ دیش کے سابق وزیر خارجہ رحمن سبحان کی خوش دامن تھیں۔

تصانیف
انھوں نے تہذیب اور عصمت کے لیے لکھا، دونوں خواتین کے اردو میگزین تھے۔ بعد ازاں انھوں نے انگریزی اخباروں کے لیے بھی لکھا۔ 1951 میں نینا کے نام لکھنے خطوط شائع ہوئے جو نینا نام کی ایک عورت کی طرف سے فرضی ہندوستانیوں کو لکھے گئے ۔ اصلی نینا ان کے سسرال میں ایک خاتون تھیں۔ ان کی تصانیف میں مندرجہ ذیل کتابیں شامل ہیں۔

کوشش ناتمام
دلی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے
فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ (اردو ترجمہ پردے سے پارلیمنٹ تک)
لیٹرز ٹو نینا
بیہائینڈ دی ویل
اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری
اعزازات
حکومت پاکستان نے بیگم شائستہ اکرام اللہ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا۔

وفات
بیگم شائستہ اکرام اللہ 10 دسمبر، 2000ء کو متحدہ عرب امارات میں وفات پا گئیں۔ وہ کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک ہوئیں۔