اداؔ جعفری صاحبہ یومِ ولادت 22؍اگست

22؍اگست 1924

*مشہور و معروف شاعرہ ” اداؔ جعفری صاحبہ “ کا یومِ ولادت…*

*عزیز جہاں* نام اور *اداؔ* تخلص ہے۔ *۲۲؍اگست۱۹۲۴ء* کو *بدایوں* میں پیدا ہوئیں۔ پہلے *اداؔ بدایونی* کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ شادی کے بعد *اداؔ جعفری* ہوگئیں۔لڑکپن سے آپ کو شعروشاعری سے شغف تھا۔ ادا جعفری نے بارہ تیرہ برس کی عمر سے شاعری کا آغاز کیا۔ *اخترشیرانی* اور *جعفر علی خاں اثرؔ* سے اصلاح لی۔ ان کی پہلی غزل ۱۹۴۵ء میں اخترشیرانی کے رسالے *’’رومان‘‘* میں شائع ہوئی۔آپ کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
*’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘، ’شہرِ درد ‘، ’غزالاں تم تو واقف ہو‘، ’سازِ سخن بہانہ ہے‘، ’حرفِ شناسائی‘، ’موسم موسم‘* (کلیات)، *’غزل نما‘* (تالیف)۔ *’’شہردرد‘‘* پر ادبی انعام ملا۔پاکستانی شاعرات میں ادا جعفری سب سے زیادہ سینئر شاعرہ ہیں۔ *ادا جعفری* کی ادبی خدمات پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے *’’ کمالِ فن‘‘* ایوارڈ دیا گیا ۔
*١٢؍مارچ ٢٠١٥ء* کو *اداؔ جعفری* انتقال کر گئیں ۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:163*

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

━━━━━━ ❃❃✺ ✿✺❃❃ ━━━━━━

🌹🎊 *مقبول شاعرہ اداؔ جعفری کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…*🎊🌹

میں آندھیوں کے پاس تلاشِ صبا میں ہوں
تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا

*ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے*
*آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے*

اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو
ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا

*جس کی جانب اداؔ نظر نہ اٹھی*
*حال اس کا بھی میرے حال سا تھا*

جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا
یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا

ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا

دل کے ویرانے میں گھومے تو بھٹک جاؤ گے
رونق کوچہ و بازار سے آگے نہ بڑھو

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی
پھول بالوں میں اک سجانے کو

کوئی طائر ادھر نہیں آتا
کیسی تقصیر اس مکاں سے ہوئی

بس ایک بار منایا تھا جشنِ محرومی
پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی

کٹتا کہاں طویل تھا راتوں کا سلسلہ
سورج مری نگاہ کی سچائیوں میں تھا

ابھی صحیفۂ جاں پر رقم بھی کیا ہوگا
ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی

جو دل میں تھی نگاہ سی نگاہ میں کرن سی تھی
وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں

کچھ اتنی روشنی میں تھے چہروں کے آئنہ
دل اس کو ڈھونڈھتا تھا جسے جانتا نہ تھا

ہوا یوں کہ پھر مجھے زندگی نے بسر کیا
کوئی دن تھے جب مجھے ہر نظارہ حسیں ملا

کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا
گھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا

متاعِ درد پرکھنا تو بس کی بات نہیں
جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے

بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے
جس نے دل توڑ دیئے اس کی دعا بھی دی ہے

*سب سے بڑا فریب ہے خود زندگی اداؔ*
*اس حیلہ جو کے ساتھ ہیں ہم بھی بہانہ ساز*

مزاج و مرتبۂ چشم نم کو پہچانے
جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے

وہ تشنگی تھی کہ شبنم کو ہونٹ ترسے ہیں
وہ آب ہوں کہ مقید گہر گہر میں رہوں

*نہ بہلاوا نہ سمجھوتا جدائی سی جدائی ہے*
*اداؔ سوچو تو خوشبو کا سفر آساں نہیں ہوتا*

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🌸 *اداؔ جعفری*🌸

*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*