محمد مرسی پیدائش 8 اگست

محمد مرسی (مکمل نام عربی زبان میںمحمد مرسي عيسى العياط، اگست 1951ء – 17 جون 2019ء) مصر کے سیاست دان اور 30 جون 2012ء تا 3 جولائی 2013ء مصر کے پانچویں صدر بھی رہے۔ عبدالفتاح السیسی نے انہیں ایک طویل عوامی مظاہرے کے بعد 2013ء مصری فوجی تاخت کے دوران میں انہیں معزول کر کے قید کر دیا۔ بحیثیت صدر انہوں نے 2012ء میں ایک عبوری آئینی اعلان جاری کیا تھا جس کے تحت انہیں خود مختاری حاصل ہو گئی اور مکمل اختیارات ان کے ہاتھ میں آگئے یہاں تک کہ عدالت کی مداخلت کے بغیر قانون سازی کا حق بھی مل گیا۔
محمد مرسی کی ولادت شمالی مصر کے محافظہ الشرقیہ کے گاوں العدوان میں 8 اگست 1951ء کو ہوئی۔ یہ علاقہ قاہرہ کے شمال میں واقع ہے۔ والد کسان تھے اور والدہ امور خانہ داری تک ہی محدود تھیں۔ اپنے پانچ بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ بچپن میں وہ گدھے کی پیٹھ پر سوار ہو کر اسکول جایا کرتے تھے۔1960ء کی دہائی میں انہوں نے قاہرہ کا رخ کیا 1975ء میں قاہرہ یونیورسٹی سے امتیازی نمبرات سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ مصری افواج کی کیمیکل وارفیئر یونٹ میں انہوں 1975ء تا 1976ء خدمات انجام دیں۔ پھر قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہلیا اور 1978ء میں دھات کاری میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ ماسٹر کی ڈگری لینے کے بعد انہیں ریاستہائے متحدہ امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظیفہ مل گیا۔ انہوں نے سال 1982ء میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے اموادی علم میں علامہ فلسفہ حاصل کیا۔ ان کا تخصص ایلومینا (Al2O3) پر تھا۔

انجینئری زندگی
1982ء تا 1985ء وہ کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے۔ انہوں نے 1980ء کی دہائی کے اوائل میں ناسا میں بھی کام کیا۔ وہاں وہ خلائی شٹل کے انجن کو ڈولپ کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ وہ دھات کی سطح کو پہچاننے کی مہارت رکھتے تھے۔1985ء میں مرسی امریکا کی اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر مصر آگئے اور جامعة الزقازيق میں پروفیسر مقرر ہو گئے۔ بعد ازاں وہ شعبہ انجیئرنگ کے صدر مقرر ہوئے۔ وہ 2010ء تک جامعة الزقازيق میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔

سیاسی سفر
سال 2000ء میں مصر کی پارلیمان میں ان کا انتخاب ہوا۔ اور 2000ء تا 2005ء وہ ایک آزاد رکن کی حیثیت سے پارلیمان کے رکن رہے کیونکہ حسنی مبارک کے عہد میں اخوان المسلمین کو انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ ان کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا مگر اخوان الیکشن لڑنے اہل نہیں تھی لہذا انہوں نے 2011ء میں فریڈم انیڈ جسٹس پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس نئی پارٹی کے وہی صدر مقرر ہوئے۔ 2010ء میں انہوں نے کہا کہ “دو قومی نظریہ ایک فریب ہے جس کا وہی نتیجہ ہونے والا ہے جو فلسطین کا ہوا ہے۔‘‘ مرسی نے سانحہ ستمبر 2001ء کو “معصوم عوام کے خاف ایک سنگین جرم“ قرار دیا تھا۔ تاہم انہوں نے امریکا پر الزام لگایا کہ اسی نے حملہ کی سازش رچی ہے اور اس کا مقصد افغانستان اور عراق پر حملہ کا جواز ثابت کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ حملہ آور مسلمان تھے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر طیاروں کے حملہ سے نہیں گرا تھا بلکہ عمارت کے اندر سے کچھ ہوا جس کی وجہ عمارت مندہم ہو گئی۔ ایسا نظریہ رکھنے والے مرسی تنہا نہیں تھے بلکہ اکثر مصریوں کا یہی ماننا ہے حتی آزاد خیال مصری بھی اسی نظرئے کے قائل ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکا میں ان کے ان تبصروں کی پرزور مخالفت ہوئی۔

2011ء میں حراست
28 جنوری 2011ء کو مرسی اور اخوان کے 24 دیگر ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ دو دن بعد وہ قاہرہ سے فرار ہو گئے۔ وادی نطرون قید خانہ کو توڑنے اور اس سے فرار ہونے کی خبر مصری میڈیا میں خوب پھیلی اور چند گھنٹوں میں پورے مصر میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ کچھ صحافیوں کا دعوی تھا کہ مصری تحریک کے ہجوم میں اخوانی سیاسی قیدی فوج کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے تھے اور انہیں قید ہی نہیں کیا گیا تھا۔ چار برس بعد جیل توڑنے کے جرم میں ان کے ساتھ 105 دیگر لوگوں پو سنوائی ہوئی اور 16 مئی 2015ء میں انہیں سزائے موت دی گئی۔

2012ء مصری صدارتی مہم
2012ء میں محمد خيرت سعد الشاطر کو صدارتی امیدوار کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ محمد مرسی کو اخوانیوں نے محفوظ امیدوار کے طور پر کھڑا کیا۔ مرسی کی امیدواری کو مشہور مصری عالم دین صفوت حجازی کی تائید بھی حاصل رہی۔ انتخابات کے پہلے دور میں انہیں 25.5 ووٹ ملے اوراپنے مخالف امیدوار سے آگے رہےان کے ہزاروں حمایتوں نے تحریر چوک پر حشن منایا۔ 24 جون 2012ء کو مرسی کو 51.73 فیصد کے ساتھ فاتح قرار دیا گیا۔ نتائج کے اعلان کے معا بعد انہوں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی صدارت سے استعفی دے دیا۔

عقائد
حکومت بدلنے پر
” مجھے امید ہے کہ عوام مجھے منتخب کرے گی، میں اخوان المسلمون اور فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کا ایک اسلام پسند امیدوار ہوں۔ اور اللہ کی مرضی ہے کہ اب یہ نظام ترقی اور استقامت کی طرف گامزن ہو۔ “
مرسی نے کہا کہ “قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے“۔ لیکن فوج کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا فوج کا بجٹ پارلیمان طے کرے گی مگر اسے صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ انہوں نے آئین مصر کا تعظیم کرنے کا عہد کیا اور کہا کہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی اپنے نظریات عوام پر نہیں تھوپے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مصری عوام ایک سماج میں رہنا چاہ رہی تھی جہاں مساوات ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ2011ء کی تحریک ایک اسلامی تحریک ہے جو مشرق وسطی میں امت اسلامیہ میں کو بیدار کرے گی۔

اسلامی سماج اور مصر کی غیر مسلم عوام
مرسی نے کہا کہ “قبطی مسیحی میری ہی طرح مصر کی عوام ہیں اور ان کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں جتنے کسی اور مصری کے ہیں“ انہوں نے کہا کہ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی اللہ کی دین ہے اور شریعت اسلامیہ مسلمان کو حکم دیتی ہے کہ غیر مسلم کے عقائد و نظریات کی بھی تعظیم کی جائے۔

صدر مصر
30 جون 2012ء کو محمد مرسی مصر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر بنے۔ انہوں نے حسنی مبارک کی جانیشنی کی جنہیں 11 فروری 2011ء کو استعفی دینا پڑا تھا۔

داخلہ پالیسی
10 جولائی 2012ء کو مرسی نے مصری پارلیمان کو پرانی حالت پر واپس لا دیا اور اسی وجہ سے ان کے اور فوج کے درمیان میں ایک خلیج قائم ہو گئی کیونکہ پرانی پارلیمان کو فوج کے تحلیل کر دیا تھا۔ مرسی نے نئے آئین مصر کو نئے سرے سے ترمیم کرنے کی کوشش کی جس میں شہری حقوق کا خیال رکھا گیا ہو اور شریعت کا رنگ غالب ہو۔

ذاتی زندگی
مرسی کی شادی 1979ء میں ان کی ش ایک رشتے دار نجلا علی محمود سے ہوئی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ انہیں “فرسٹ لیڈی“ نہ کہا جائے۔ مرسی کی پانچ اولادیں ہوئیں: احمد محمد مرسی، وہ سعودی عرب میں ڈاکٹر ہیں؛ شائمہ، جامعہ زقازیق سے گریجویٹ ہیں؛ اوسامہ، اٹارنی ہیں؛ عمر، جامعہ زقازیق سے گریجویٹ ہیں؛ اور عبد اللہ، ہائی اسکول کے طالبعلم ہیں۔ مرسی کی دو اولادیں کیلیفورنیا میں پیدا ہوئیں اور ان کے پاس ریاستہائے متحدہ امریکا کی شہریت ہے۔ ان کی پاکستان آمد پر انہیں 18 مارچ 2013ء کو دنیا میں امن و سکون کی راہ ہموار کرنے اور مسلم ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ان کی کاوشوں کے عوض انہیں اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے اعزازی پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا گیا۔

وفات
17 جون 2019ء کو اچانک میڈیا میں خبر نشر ہوئی کہ قاہرہ میں عدالت میں سنوائی کے دوران مرسی اچانک گرگئے اور میڈیکل رپورٹ کے مطابق دورہ قلب کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔ انہیں اخوان المسلمون کے دیگر قائدین کے پاس قاہرہ میں دفن کیا گیا۔ مصری حکومت کے ناقدین نے مرسی کی وجات کی وجہ ان کی سنوائی کو بتایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مرسی سنوائی میں کھڑے ہونے کے قابل نہیں تھے۔ اخوان المسلمون کے ایک بڑے رہنما محمد سودان نے کہا کہ ان کی موت دراصل قبل از وقت قتل ہے۔ کرپسن بلنٹ، جنھوں نے برطانوی پارلیمان میں مرسی کی حات اور سنوائی کو لے کر ایک پینل کی قیادت کی تھی، کہا “ہمیں خدشہ تھا ڈاکٹر محمد مرسی کو اگر بروقت بطی مدد نہ دی گئی تو ان کی صحت ہمیشہ کے لیے جواب دے جائے گی، ہمیں افسوس ہے کہ ہم صحیح ثابت ہوئے۔“ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے مصری حکومت کو مرسی کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور انہیں شہید کہا ہے۔استنبول میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھی گئی۔