محمد علی پاشا وفات 2 اگست

محمد علی پاشا محمد علي باشا، Mehmet Ali Paşa) (پیدائش 1769ء، انتقال 2 اگست، 1849ء) آل محمد علی کی سلطنت اور جدید مصر کے بانی تھے۔ وہ مصر کے خدیو یا والی تھے۔ محمد علی موجودہ یونان کے شہر کوالا میں ایک البانوی خاندان میں پیدا ہوئے۔ نوجوانی میں تجارت سے وابستہ ہونے کے بعد وہ عثمانی فوج میں شامل ہو گئے۔
1798ء میں نپولین نے سلطنت عثمانیہ کے صوبے مصر پر جارحیت کی اور جنگ اہرام میں مملوکوں کی فوج کا کو بدترین شکست دی۔ اس عسکری مہم کا مقصد برطانیہ کی اپنی نوآبادی ہندوستان تک رابطے کا ذریعہ کاٹنا تھا تاہم جنگ نیل میں اسکندریہ کے قریب فرانسیسی بحری بیڑے کی برطانیہ کے ہاتھوں تباہی سے نپولین کا مقصد کامیاب نہ ہو سکا تاہم اس کی دیگر فوجیں بدستور اور بمشکل مصر پر قابض رہیں اور تین سال بعد انہیں مصر چھوڑنا پڑا اور 1801ء میں باقاعدہ طور پر مصر فرانسیسی قبضے سے آزاد ہو گیا۔

مملوکوں اور فرانسیسی قبضے کے خاتمے کے بعد مصر میں قیادت کا جو خلا پیدا ہوا اس کو پر کرنے کے لیے نوجوان محمد علی کو مصر بھیجا گیا۔ وہ 1805ء میں قسطنطنیہ سے منظور شدہ عثمانی ولی یا وائسرائے کے طور پر مصر آئے۔

محمد علی پاشا نے اولین چند سال مقامی بغاوتوں کو فرو کرنے میں گزارے۔ ان کے اس دور کا سب سے شاندار یا بہ الفاظ دیگر افسوسناک واقعہ مملوکوں کا مکمل خاتمہ تھا۔ انہوں نے 1811ء میں عرب میں وہابی “بغاوت” کے خاتمے میں کامیابی کی خوشی میں جشن کا انعقاد کیا جس میں مملوک امیروں کو بلایا گیا۔ اس تقریب کے لیے ایک تنگ گلی سے گزرنے والے مملوک امیروں کو گھات لگائے بیٹھے محمد علی پاشا کے سپاہیوں نے قتل کر ڈالا۔

بعد ازاں محمد علی نے جدید بنیادوں پر فوج تشکیل دی اور 1827ء میں عثمانی سلطان محمود ثانی کی درخواست پر اپنے نظامی فوجیوں کو بیٹے ابراہیم پاشا کی سرکردگی میں یونان بھیجا جہاں یونانیوں نے عثمانی سلطنت سے بغاوت کر ڈالی تھی۔ محمد علی نے کثیر سرمایہ خرچ کرکے بحریہ بھی تشکیل دی تھی۔ محمود ثانی اور محمد علی میں اس اختلافات کھڑے ہو گئے جب یونانیوں کی پشت پناہی کرنے والے برطانیہ، فرانس اور روس کا مشترکہ بحری بیڑا عثمانی بحریہ سے مقابلے کے لیے میدان میں آگیا۔ محمد علی نے صورت حال کا اندازہ لگاتے ہوئے کہ عثمانی بحریہ اس مشترکہ یورپی بحری بیڑے کو شکست نہیں دے سکتی، سلطان سے مطالبہ کیا کہ وہ یونان کی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے سلطنت آسٹریا سے امن مذاکرات کرے لیکن محمود ثانی نے اس تجویز کو ٹھکرا دیا۔ جس پر علی نے اپنا بحری بیڑا مقابلے کے لیے بھیجا اور 20 اکتوبر 1827ء کو جنگ ناوارینو میں چند گھنٹوں کے دوران عثمانی بحریہ کا تقریبا پورا بیڑا تباہ ہو گیا۔ یہ محمد علی کی سلطان کی جانب سے لڑی گئی آخری جنگ تھی۔

اس شکست کے نتیجے میں محمد علی نے فوج کی تنظیم کو مزید جدید کرنے کی ٹھان لی اور ایک اسٹاف کالج قائم کیا جہاں فرانسیسی افسران کی زیر نگرانی تربیت دی جاتی تھی۔

صنعتی ترقی اور جدیدیت
محمد علی نے مصر میں کپاس کی صنعت کو فروغ دیا اور ملک بھر میں کسانوں کو کپاس کی کاشت پر آمادہ کیا۔ اس کے علاوہ اس نے جدید تعلیمی اداروں، سڑکوں، نہروں اور صنعتوں کا جال بچھا دیا اور اسکندریہ میں بحری جہاز ساز کارخانہ قائم کیا۔

اس نے قاہرہ کو جدید بنیادوں پر استوار کیا اور اسے ایک جدید شہر بنایا۔

سوڈان پر قبضہ
محمد علی کی نظریں سوڈان کی سرزمین پر گڑی ہوئی تھیں اور اس نے 1820ء میں سوڈان پر جارحیت اور اس پر قبضہ کرنے کا حکم دیا۔ محمد علی کی افواج 1821ء میں سوڈان میں داخل ہوئیں۔ انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن بہتر تنظیم اور آتشیں اسلحے کی بدولت مصری افواج کامیاب ہوئیں۔

سلطان کے خلاف بغاوت
20 اکتوبر 1827ء کو عثمانی نمائندے محرم بے کی زیر کمان مصری بحریہ کا پورا بیڑا یورپ کے اتحادی بیڑے کے ہاتھوں تباہ ہو گیا۔ اس عظیم نقصان پر محمد علی نے سلطان نے شام کی مصر میں شمولیت کا مطالبہ کیا۔ لیکن سلطان نے اس مطالبے کو ٹھکرا دیا۔

محمد علی نے نیا بحری بیڑا اور نئی فوج تشکیل دی اور 31 اکتوبر 1831ء کو ابراہیم پاشا کی قیادت میں شام پر مصری جارحیت کا آغاز ہوا۔ مصری افواج فتوحات پر فتوحات حاصل کرتے ہوئے عکہ تک پہنچ گئیں جہاں 6 ماہ کے محاصرے کے بعد 27 مئی 1832ء کو داخل ہوئیں۔ اب ان افواج کی شمال کی اناطولیہ میں پیشقدمی کا آغاز ہوا۔ 21 دسمبر 1832ء کو جنگ قونیہ میں ابراہیم پاشا نے عثمانی فوج کو زبردست شکست دی۔

محمد علی کی اس جارحیت کا مقصد عثمانی سلطنت کا خاتمہ نہیں بلکہ مصر کی آزاد حیثیت کا قیام اور سلطان محمود ثانی کی سبکدوشی تھی۔ ان خطرات کے پیش نظر محمود ثانی نے روس کی جانب سے عسکری مدد کی پیشکش قبول کرلی اور 1833ء میں معاہدے (دیکھیے: معاہدۂ کوتاہیہ) کے بعد محمد علی نے اناطولیہ سے افواج نکال لیں اور اسے کریٹ اور حجاز کا علاقہ بھی دیا گیا اور ابراہیم پاشا کو شام کا والی مقرر کیا گیا۔

1839ء میں شام کی نیم خود مختاری پر عدم اطمینان کے باعث محمد علی نے ایک مرتبہ پھر سلطان کی افواج کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ جب محمود ثانی نے اپنی افواج کو شامی سرحدوں پر پیش قدمی کی ہدایت دی تو ابراہیم نے حملہ کرکے 24 جون 1839ء کو عرفہ کے مقام پر جنگ نزب میں انہیں تباہ کر دیا۔ جنگ قونیہ کے باعث دار الحکومت قسطنطنیہ کو خطرہ لاحق ہو گیا اور اس نازک موقع پر محمود ثانی کا انتقال ہو گیا جس کے بعد اس کے 16 سالہ بیٹے عبد المجید نے اقتدار سنبھالا۔ اس موقع پر محمد علی اور ابراہیم نے پیشقدمی کے بارے میں غور کیا، ابراہیم کا کہنا تھا کہ قسطنطنیہ کو فتح کر لیا جائے جبکہ محمد علی چند علاقوں کی حوالگی اور سیاسی خود مختاری کا مطالبہ کرنے کے حق میں تھا۔

15 جولائی 1840ء کو برطانیہ، آسٹریا، روس اور پرشیا نے لندن کنونشن پر دستخط کیے جس کی رو سے محمد علی کو مصر پر حکمران تسلیم کر لیا گیا اور شام اور لبنان کے ساحلی علاقوں سے اپنی افواج کے اخراج کے بدلے عکہ کی تاحیات گورنری کی پیشکش دی گئیں۔ محمد علی نے ان شرائط کو مسترد کر دیا اور بعد ازاں فرانس کی مخالفت کے باوجود اگلے چند ہفتوں میں کثیر القومی یورپی عسکری مہم کا آغاز کیا گیا۔

برطانوی اور آسٹرین بحریہ نے نیل کے ڈیلٹا کی ساحلی پٹی پر تجارتی گزرگاہ روک لی اور 11 ستمبر 1840ء کو بیروت پر گولہ باری کی۔ 3 نومبر 1840ء کو عکہ پر قبضہ کر لیا جس پر 27 نومبر کو محمد علی نے کنونشن کی شرائط منظور کر لیں۔ اسے کریٹ اور حجاز سے بھی محروم ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ وہ اپنی بحری و بری فوج کو 18 ہزار افراد تک محدود کرنے پر بھی رضامند ہو گیا۔ ان شرائط کو منظور کرنے پر اسے اور اس کی اولاد کو مصر پر حکمرانی کی اجازت دی گئی۔

آخری ایام
محمد علی پاشا کی جدیدیت پسندی نے جہاں مصر کو زراعت اور صنعت کے اعتبار سے ترقی ملی وہیں ترقیاتی کاموں پر اندھا دھند رقم خرچ کرنے سے مصر قرضوں میں جکڑ گیا۔ دیوان مالیہ کے مطابق مصر پر 80 ملین فرانک (2،400،000 پاؤنڈ) قرضہ تھا۔

ایک سال بعد ابراہیم تپ دق کا شکار ہو گیا اور اسے اٹلی بھیج دیا گیا جبکہ 1846ء میں محمد علی نے قسطنطنیہ کا دورہ کیا۔

ابراہیم کی وفات کے وقت محمد علی بھی بیمار پڑ گیا اس لیے اسے ابراہیم کے انتقال کی خبر نہ دی گئی اور چند ماہ بعد 2 اگست 1849ء کو محمد علی بھی چل بسا۔ اسے قاہرہ میں اس کی اپنی تعمیر کردہ محمد علی مسجد میں سپرد خاک کیا گیا۔