اودے پور میں کنہیاکاقتل اور امراوتی میں امیش کا قتل۔۔۔ ان دو افراد کے قتل نے میڈیاکو مسلمان اور اسلام کے خلاف زہراگلنے کا ایک دفعہ پھر موقعہ دےدیا۔۔اس وقت ہر ٹی وی چینل پر یہی موضوع جاری ہے اور مباحثے ہورہے ہیں مسلمانوں کو ظالم جابر بےرحم دہشتگرد سب کچھ باورکرایاجارہاہے اس طرح سے نپور شرما کی گستاخی کی وجہ سے ہم مظلوم گردانے جارہےتھے اور بےشمار سیکولر غیرمسلم بھی مسلمانوں کے ہم نوا نظرآرہےتھےوہ بھی اس واقعے سے بددل ہوگئےہیں اور مسلمانوں کی حمایت میں بولنے کا جو جوش تھاوہ سرد پڑگیاہے۔
خیرہوئی کہ سپریم کورٹ نے جمعہ کو نپورشرماکی وہ اپیل جس میں اس نے اہنے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں درج ہونے والی ایف آئی آر کو ایک جگہ کلب کرنے کی درخواست کی تھی کی سماعت کے دوران ججوں نے نپور شرما کو بہت زجروتوبیخ کی اور اسے موجودہ کشیدہ حالات کاذمہ دار قرار دیااور صاف لفظوں میں کہاکہ کنہیا کاجو قتل ہوا اس کی وجہ بھی آپ ہیں اوردوسرے علاقوں میں فسادات ہوئے اس کی ذمہ دار بھی آپ ہیں اور دہلی پولیس آپ کے ساتھ خصوصی رعایت کررہی پے اور آپ کو گرفتار نہیں کررہی ہے اس طرح سے ججوں نے سخت ناراضگی کااظہار کرکے اپیل خارج کردی اب نپور کو ملک میں جہاں جہاں ایف آئی آر درج ہوئی ہے وہاں وہاں پولیس کاروائی کاسامنا کرناپڑےگا۔
اس بدبخت عورت کو سخت سزاملنی چاہئے اس نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وگستاخی کرکے دنیابھرکے کروڑوں مسلمانوں کادل دکھایاہےاور اسی کی وجہ سے کانپور اور دیگر علاقوں میں فساد ہوا جس کے نتیجے میں سینکڑوں مسلم نوجوان قیدوبند میں ہیں اور کئی نوجوانوں پر تو این ایس اے لگادیاگیاجس کی بنیاد پر ایک سال سے پہلے ان کی ضمانت نہیں ہوسکےگی۔
اودئے پور میں جن دو نوجوانوں نے کنہیا کاقتل کیااس کی وجہ بھی نپور شرما کی گستاخی ہے جسے کنہیا کے موبائل سے شئیر کیاگیاتھاجس کی بنیاد پر ریاض اور غوث محمد نامی دو نوجوانوں نے اسے قتل کردیااور پھر ریاض کاتعلق دعوت اسلامی سے بتاکر دعوت اسلامی کے خلاف میڈیانے زہر اگلناشروع کردیااور دعوت اسلامی کودہشت گرد تنظیم قرار دےدیا حالانکہ دعوت اسلامی ایک غیر سیاسی اور خالص دعوتی وتبلیغی واصلاحی تحریک ہے اور کسی بھی پرتشددکاروائی سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے یورپ سمیت دنیاکے ایک سو تیس ممالک میں اسکا کام ہوتاہے مگر آج تک اس کے بارے میں ایسا کوئی ثبوت منظرعام پر نہیں آیاکہ یہ دہشتگرد کاروائیوں میں ملوث ہے۔
کنہیاکے قتل کےفورا بعد میڈیانے دعوت اسلامی کانام لینا شروع کردیاتھا مگر پھر یہ حقیقت طشت ازبام ہوئی کہ ریاض کاتعلق بی جے پی سے ہے اور اس دعوے کے ثبوت میں کانگریس کے کچھ لیڈران نے کچھ تصویریں میڈیاکو دکھائیں ہیں جس میں ریاض بی جےپی کے لیڈران کے ساتھ نظر آرہاہے جس سے اس حقیقت سے پردہ اٹھ جاتاہے کہ یہ قتل بھی مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک خطرناک سازش ہے۔
بہرحال اس وقت علماء کومیدان میں آکر مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرنی چاہیئے کہ کسی بھی مجرم کوسزا دینے کاحق عوام کو نہیں ہے ۔۔گستاخ نبی کی ایک سزا سرتن سے جدا سرتن سے جدا ۔۔۔اس نعرے کامطلب لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ جوگستاخ نبی ہو اسے خود ہمیں قتل کردیناچاہیئے ۔اس موقعہ پرہمیں لوگوں کو شریعت کااصول بتاناہوگاکہ جب کوئی گستاخی کرےتو اسے سزادینے کاحق اسلامی ریاست میں صرف بادشاہ اسلام یااس کے نائب کوہے عوام کسی کو خود سے سزا نہیں دے سکتے اور اسلامی ریاست میں بھی پہلے مقدمہ چلےگا اور جب اس کا جرم جب ثابت ہوگاتب بادشاہ اسلام اسے سزادےگا مقدمے سے پہلے یاجرم ثابت ہونے سے پہلے سزا نہیں دی جاسکتی اور اگر یہ اختیار عوام کو دےدیاجائے کہ وہ کسی کے بھی بارے میں یہ فیصلہ کرلیں کہ اس نے گستاخی کی ہے اور وہی اس کو سزا بھی دے دیں تو دنیاسے امان اٹھ جایےگا اور لوگ اس کا غلط استعمال شروع کردیں گے یہ تو تھااصول اسلامی ریاست کا اب جہاں اسلامی ریاست نہ ہوتو وہاں مسلمانوں کو جو کرناہے وہ ان کو بتایاجائے کہ اس طرح کے معاملات میں ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کے قانون کے مطابق مجرم کو سزا دلانے کے ہم مکلف ہیں اور ہندوستان میں اس سلسلے میں ایک قانون موجود ہےگووہ خاص گستاخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہیں ہے مگر اس ملک میں جب کوئی کسی مذہب کےبارے میں یا کسی مذہبی پیشوا کے بارے میں یامذہبی مقام کے بارے میں یاوہ گوئی وہرزہ سرائی کرکے اس مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے تو دفعہ 295A کے تحت اس کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے اس دفعہ کی تفصیل یہ ہے۔
Deliberate and malicious acts, intended to outrage religious feelings of any class by insulting its religion or religious beliefs.—Whoever, with deliberate and malicious intention of outraging the religious feelings of any class of 273 [citizens of India], 274 [by words, either spoken or written, or by signs or by visible representations or otherwise], insults or attempts to insult the religion or the religious beliefs of that class, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years or with fine, or with both.
ترجمہ: جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کارروائیوں کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو اس کے مذہب یا مذہب سے متعلق عقائد کی توہین کرکے غم و غصے کا اظہار کرنا ہے۔ -جو بھی، 273 [بھارت کے شہریوں] کے کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مسترد کرنے کے بارے میں جان بوجھ کر اور بد نیتی کے ساتھ، 274 [الفاظ کی طرف سے، یا تو بولی یا لکھا، یا علامات کی طرف سے یا نظر انداز کی نمائندگی کی طرف سے یا دوسری صورت میں]، مذہب یا اس طبقے کے مذہبی عقائد کی توہین کرنے کی کوشش کی جائے گی، اس اصطلاح کی وضاحت کے لئے قید کی سزا دی جائے گی جس میں تین سال تک توسیع ہوسکتی ہے۔
اس کےعلاوہ بھی کچھ دفعات ہیں جو اس قسم کی شرانگیزی کرنے والوں کے خلاف لگائی جاتی ہیں اور اگر جرم ثابت ہوجائےتو تین سال کی سزا ہوتی ہے۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاتقاضہ یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی گستاخی کاارتکاب کرے ملک کے ہر شہر کے مسلمان فورا فعال ہوجائیں اور ہر شہر میں قانونی کاروائی کی جائے اس سے مجرم کو ہر شہر میں جاکر ضمانت کرانی پڑےگی اور مقدمات کی تاریخوں پرہر شہر میں جانا پڑےگا اس طرح سے گستاخی کاارتکاب ایک مشکل عمل ہوجائے گا اور پھر یہ حرکت کرنے سے پہلے ہر شخص سوبار سوچےگا اگر پولیس کاروائی نہ کرے تو کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایا جائے ہر شہرکے صاحب ثروت مسلمان نبی کے نام پر اپنی دولت کی قربانی دیں اور قابل وکیل کاانتخاب کرکے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے۔
مساجد۔ مدارس۔ یتیم خانہ۔ اور بے شمارفلاحی امور کے لئے ہم نے ایک بجٹ بنارکھاہے کیا ناموس رسالت کی خاطر ہم ایک مالی بجٹ نہیں بناسکتے ؟۔
کسی بھی گستاخ کو سزا دلانے کایہی پرامن اور دستوری طریقہ ہے اگر اسے چھوڑ کر جارحانہ طریقہ نوجوانوں کوسکھایاگیا تو وہ خود بھی تکلیف میں آئیں گے اور ان کی کاروائی سے مسلمان اور خود اسلام کو بدنام کیاجائےگا اس ملک کا میڈیا انتہائی قسم کا مسلم مخالف ہوچکاہے اور ہرمسئلے پر مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے پرآمادہ رہتاہے گذشتہ دنوں یہی نپور شرما کے مسئلے میں جو احتجاجی جلوس نکالے گئے بعض علاقوں میں وہ جلوس پرتشدد ہوگئے جس سے میڈیانے ملک کے مسلمانوں کی خوب شبیہ خراب کی اور احتجاجیوں کودنگائی کہا مگر اس کے بعد ہی اگنی پتھ اسکیم کے خلاف جو احتجاج ہوا وہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہزار گنا پرتشدد تھا ٹرینیں جلائی گئیں بسیں جلائی گئیں ریلوے اسٹیشن لوٹے گئے توڑے گئے پتھر بازی کی گئی پولیس کوزخمی کیاگیا اربوں روپیئے کی املاک تباہ وبرباد ہوئی مگر میڈیا نے ان کے بارے میں جو نرمی دکھائی وہ جگ ظاہر ہے کسی بھی اینکر نے انھیں دنگائی نہیں کہا اور حکومت کی نوازشات تو قابل دید تھیں ان کے سلسلے میں بڑی نرمی دکھائی گئی اورمسلمانوں کے خلاف گینگیسٹر ایکٹ کے تحت کاروائی کی گئی این ایس اے لگایاگیا پولیس حراست میں مسلم نوجوانوں کو جانور کی طرح ماراگیا اس کی ویڈیو بنائی گئی اور پھر میڈیانے جب اس پر سوال کیاتو صاف انکارکردیاکہ وہ ویڈیو ہمارے پولیس اسٹیشن کی ہےہی نہیں۔
2014 سے پہلے کاہندوستان اور 2014 کے بعد کاہندوستان ۔۔۔اب دونوں میں ماحول کاجو فرق ہوگیاہے اسے ہمیں سمجھناہوگا حکومت اور میڈیا کا مسلمانوں کےساتھ جو معاندانہ سلوک ہے اب وہ انتہاکو پہنچ چکاہے اس لیے ہراقدام دانش مندانہ ہونا چاہیئے.