گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہُوا
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہُوا
قیودِ شام و سحَر میں بسر تو کی لیکن
نظامِ کُہنۂ عالم سے آشنا نہ ہُوا
فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو
حضورِ آیۂ رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو
کہا حضورؐ نے، اے عندلیبِ باغِ حجاز!
کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گُداز
ہمیشہ سرخوشِ جامِ وِلا ہے دل تیرا
فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز
اُڑا جو پستیِ دنیا سے تُو سُوئے گردُوں
سِکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بُو آیا
ہمارے واسطے کیا تُحفہ لے کے تُو آیا؟
“حضورؐ! دہر میں آسُودگی نہیں مِلتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں مِلتی
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بُو، وہ کلی نہیں مِلتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے، جنّت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری اُمّت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہُو اس میں
علامہ محمد اقبال