حیرتِ عشق نہیں، شوقِ جنوں گوش نہیں
بے حجابانہ چلے آؤمجھے ہوش نہیں
رِند جو مجھ کو سمجھتے ہیں انہیں ہوش نہیں
میکدہ ساز ہوں میں میکدہ بردوش نہیں
کہہ گئی کان میں آ کر تیرے دامن کی ہوا
صاحبِ ہوش وہی ہے کہ جیسے ہوش نہیں
کبھی ان مدھ بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں
محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہےمگر ہوش نہیں
مِل کے جس دن سے گیا کوئی ایک بار جگرَ
مجھ کو یہ وہم ہےجیسے میرا آغوش نہیں
(جگر مراد آبادی)