انگریزی کے مشہور ادیب جوزف کانراڈکے تعلق سے مشہور ہے کہ اُس کے خوابوں کی زبان پولش، تصورات کی زبان فرانسیسی اور تصنیف و تحریر کی زبان انگریزی تھی۔ ایسا ہی کچھ حال ریاست کیرلا کے پہلے اردوشاعرو ادیب جناب سید محمد سرورؔ کا ہے جن کی مادری زبان ملیالم ہے،تصورات کی زبان عربی ہے اور تحریری زبان اردو ہے۔سید محمد سرورؔنے محوی صدیقی جیسے قادر الکلام اور کہنہ مشق شاعر وادیب کی سرپرستی میں نہ صرف ایک مختصر عرصے میں فن شعر گوئی سے واقفیت حاصل کر لی بلکہ ادب عالیہ کا مطالعہ بھی کرنے لگے۔ خصوصا اقبالیات کے مطالعے نے سرور صاحب کے قلب وذہن کو ایک روحانی مسرت و بصیرت سے سرشار کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شاعر مشرق کا اندازبیان،طرزادا اور بعض اعلی پیمانے کے فلسفیانہ رموزو لطائف سرور کے سینے میں مکمل طور پر سرایت کرگئے۔کلام سرور کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کابخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے اشعار کو مکمل طور پر علامہ اقبال کے طرزبیان کے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔جناب سرور کا ہر ہر شعر اقبال کی مکمل پیروی کا غماز ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کی زبان اردو نہیں ہوتی وہ غزل کو پسند کرتے ہیں اور غزل ہی کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن سرور صاحب کا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ان کے مجموعہ ء کلام بنام ”ارمغان کیرلا“ میں ایک بھی غزل نہیں ہے، صرف نظمیں لکھی ہیں۔ان کی نظمیں مختلف موضوعات پر ہیں جن میں آج کے موضوعات یعنی عصری مسائل اور حادثات پر بھی نظمیں ہیں اور اخلاقی اور مذہبی نظمیں بھی۔ جو درحقیقت اقبالیات کے گہرے مطالعے کا نتیجہ ہے۔ان کی ایک خوبصورت نظم ان کے ارض وطن ”کیرلا“ پر بھی ہے جس میں اقبال کا رنگ سخن نمایا ں ہے۔نظم ”کیرلا“ کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
ہند کی انگشتری کا ہے نگینہ کیرلا
ہے کئی اشیائے نادر کا خزینہ کیرلا
بحر میں جب ڈوبتا ہے شام کے وقت آفتاب
لے کے مشعل ڈھونڈنے آتاہے فورا ماہتاب
خلد آسا، جانفزا، وجد آفرین و کیف بار
ہر سماں رکھتا ہے دامن میں عجب شان بہار
اور آخر میں وہ کیرلا کو کشمیر(جسے سر زمین ہند کا فردوس مانا جاتا ہے) سے بہتر بتاتے ہیں:
تم کہو کشمیر کو فردوس بر روئے زمیں
میں کہوں ہے کیرلا فردوس سے بڑھ کر کہیں
جناب سرور نے جہاں اشعارمیں اقبال کی پیروی کی ہے وہیں انہوں نے اپنی نظموں کے اسماء کے انتخاب میں بھی ان کی مکمل تقلید کی ہے۔علامہ اقبال کی اکثر نظمیں ”مردانِ خدا“،”مسلمان کا زو ال“،”داغ“،”کافر اور مومن“،”فردوس میں ایک مکالمہ“،”عقل ودل“،”شمع و پروانہ“،”رومی“،”ذوق و شوق“،”اقبال“،”بیداری“،”امید“،”اسیری“،”ایک بحری قزاق اورسکندر“،”ابلیس اور مجلس شوری“،”والدہ مرحومہ کی یاد میں“وغیرہ کے عناوین سے ملتی ہیں۔اب دیکھیں سرور صاحب کی نظموں کے چند عنوانات: ”شان مومن“،”جوش کہن“،”اقبال“،”جنت میں مکالمہء اقبال و رومی“،”گندم نما جوفروش“،”دور چنگیزی“،”نعرہ ءفرعونی“،”عقل و دل کا مکالمہ“،”عید“،”حیات جاوداں“،”تمنائے دیرینہ“،”آہ اماں“ وغیرہ۔یعنی کہ ہر عنوان اقبال کے عنوانات کا مماثل و مشابہ ہے۔نیز جس طرح اقبال کے یہاں بچوں کے لیے بھی متعدد نظمیں موجود ہیں بالکل اسی طرح سرور نے بھی بچوں کے لیے چند اچھی نظمیں لکھ کر علامہ اقبال کی پیروی کا مکمل ثبوت دیا ہے۔جیسے ”بچوں کی دعا“،”مچھر اور طفلک شیر خوار“،”تتلی اور بچہ“،”بچوں سے“،”جگنو“ وغیرہ۔
خیالات کی بلند پروازی،غنائیت،شعریت، معنی آفرینی،خوبصورت تراکیب اور زبان کی صفائی و روانی اقبال کی شاعر ی کی جان اور پہچان ہیں۔اور یہی وہ صفات ہیں جن سے سر ور کے اشعار مزین ومرصع دکھائی دیتے ہیں۔دراصل سرور نے اقبال کی شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھااور ان کا تتبع کرنا فخر اور باعث سعادت سمجھتے تھے۔اگر ان کے مجموعہء کلام ”نوائے سرور“ (مع انتخاب از ارمغان کیرلا) کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو وہ بجا طور پر اقبال کے صحیح پیروکار نظر آتے ہیں جن کی رگ رگ میں اقبالیات سمایا ہواہے۔جیسا کہ اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین، مجسم خودی، مردِ قلندر،مرد مومن، مرد فقیر،مرد حر،دانائے حق،خود نگر اور خود شکن وغیرہ جیسے استعاروں کے حوالے سے ایک روشن کردار کے نقوش ابھارے ہیں۔یہ کردار عرفان خودی کی نہایت طاقتور تجسیم ہے جو مقام بادشاہت پر متمکن رہتا ہے۔ سرور نے بھی اقبال کے ان تمام استعاروں کو اپنے اشعار میں پیش کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے اور وہ اپنی کاوشوں میں کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔اب آئیے ان کے اشعار کا تحقیقی جائزہ لیں اور ان کے اشعار کا شاعر مشرق کے اشعار سے مشابہت کی گہرائی و گیرائی کو سمجھیں۔اقبال کا مشہور شعر ہے:
مراطریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
جناب سرور فرماتے ہیں:
ثروت پہ تجھ کو ناز ہے مجھ کو ہے فقر پر
گہوارہء سکوں ہے یہ خانہ غریب کا
فقیری میں تری عظمت یہی ہے
نڈر بن! صورت شاہاں گزر جا!
موصوف نے اقبال کے فلسفہء خودی کو بھی اپنے اشعارمیں جگہ دی ہے:
خودی میں ڈوب زمانے سے نا امید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو
اقبالؔ
قدرت کا یہ آئین مسلم ہے ازل سے
احساس خودی نذر زیا ں ہو نہیں سکتا
خودی کے ہیں جو گرویدہ،ہے جن میں شان خودداری
خدا کے فضل سے وہ دہر میں برتر نکلتے ہیں
سرورؔ
”شاہین“ کو اقبال کے یہاں مرد مومن کی علامت ہونے کا درجہ حاصل ہے اس لیے وہ اقبال کا محبوب ترین پرندہ ہے۔سرور صاحب نے اقبال کے اس محبوب پرندے کوبھی اپنے اشعار کی زینت بنا کر ان کی کامل تقلید کا اظہار کیا ہے:
توشاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اقبالؔ
میں کہ ہوں شاہین یہ دنیا مری منزل نہیں
یہ فضا میرے لیے محدود ہے، ناساز ہے
سرورؔ
جس طرح اقبال کے یہاں پیچیدہ خیالات اور فارسی تشبیہات کی بہتات ہے سرور کے یہاں بھی ایسے اشعار کثیر تعداد میں موجود ہیں۔جیسے:
خلد آسا،جانفزا،وجد آفرین و کیف بار
ہر سما ں رکھتا ہے دامن میں عجب شان بہار
شاعرانہ ذوق جاگ اٹھے اگر خوابیدہ ہو
ہر لب خندا ں پہ نغمہ کیف کا بالیدہ ہو
بلکہ گاہے بگاہے فارسی اشعا ربھی ان کے مجموعے کی رونق بڑھارہے ہیں:
سرورؔروسیاہ را رنج مدہ برو مزن
نشتر خویش نیم شب کرمک سبک ریز تو
آپ نے غور کیا؟انہوں نے فارسی شعروں میں بھی اقبال کا دامن نہیں چھوڑااور نیم شب،کرمک اور سبک ریزجیسے الفاظ کا استعمال کرکے اقبال سے اپنی غایت درجے کی عقیدت مندی کا ثبوت پیش کیا ہے۔
اقبال نے چند الفاظ و تراکیب کے ذریعہ کچھ ایسی تلمیحات باندھی ہیں جو فکر کی بلندی و معنی آفرینی کے ساتھ ساتھ مکمل شعریت و غنائیت اور روانیء بیان کی اعلی مثال ہے اور جسے افکار میں جدت پسندی کی معراج کہی جا سکتی ہے مثلا ”لا و الا“ کی ترکیب، ”لولاک“ کی تلمیح اور انبیاء، اصحاب، صوفیا ء اور سلاطین کے اسماء کا نہایت ہی دلکش اور معنی خیز انداز میں ذکر کرنا وغیرہ!! مجموعہء سرور بھی اس قسم کی دل آویز تلمیحات و تراکیب سے بھرا پڑاہے۔خود اپنی ایک نظم ”اقبال“ جس میں سرور نے شاعر مشرق کو خراج تحسین پیش کیا ہے فر ماتے ہیں:
غضب ہے تو نے ایاغ ”لا“میں شراب”الا“ بھری ہے ایسا
کہ آج دم بھر تے جا رہے ہیں خواص تیرا عوام تیرا
اسی نظم کا ایک اور شعر ہے:
ہجوم ہونہ کیوں میکشوں کا ترے دل آویز میکدوں پر
یہاں کا پیر مغاں تھا رومی وہی تو ٹھہرا امام تیرا
ایک اور نظم بنام ”جنت میں مکالمہء اقبال و رومی“ میں کہتے ہیں:
تو رازی اور عرفی تھا تو سعدی اور رومی تھا
کسے شک ہے ترے افکار پاکیزہ کی رفعت میں
”بیت المقدس پر یہودیوں کے قبضے سے متاثر ہو کر“ نامی نظم میں وہ گویا ہیں:
اٹھ خس و خاشاک صیہونی سے گلشن پاک کر!
زندہ پھر آفاق میں وہ سطوت ”لولاک“ کر!
غیرتِ سبط نبی کی شان پھر بیدار ہو
ذوالفقاری عزم کی حامل تری تلوار ہو
ضرب ہو کاری تری بھرپور تیراوار ہو
پھر صلاح الدین سا پیدا کوئی سالار ہو
نصرت غیبی سے ہرگزیوں نہ تومایوس ہو
ہو جو ابراہیم وہ آ زر سے کیوں مانوس ہو؟
جناب سرور دیگر شاعروں کی طرح یاسیت یا قنوطیت پسندی کے شاعر نہیں بلکہ ان کی شا عری میں امید و رجا کی قندیل روشن ہے۔یہ وصف بھی انہوں نے اقبال ہی سے سیکھا ہے جو ان کی شاعری کا طرہء امتیاز ہے۔اقبال کاشعر دیکھیں:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
سرورصاحب نے کہا:
شمشیر بکف پھر سے ہو گر مسلم جانباز
باطل کا کبھی سکہ رواں ہو نہیں سکتا
شکایت تجھ کو نازیبا ہے سرورؔ
گلوں سے درگزر خنداں گزر جا
اقبال نے اللہ عز و جل کے حضور اپنے اسلاف کی مانند دل سوزاں، باطل سے مقابلہ کرنے کی قوت اور خود کو عشق مصطفوی میں جلا دینے کے جذبے کا مطالبہ کیا ہے اور مسلمانوں میں وہی دیرینہ حرارت ایمانی و اولوالعزمی ودیعت کر نے کی استدعا کی ہے، سو وہ فرماتے ہیں:
اپنے پروانوں کو پھر ذوق خودافروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے!
اب سرور کا شعر ملاحظہ کیجیے جو تقریبا اقبال کے اس شعر کا ہم معنی ہے اور جس سے سرور کے افکار کا اقبال کے طرز بیان سے کامل ہم آہنگی و موافقت کا پتہ ملتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
دے بندہء مومن کو وہی پھر دلِ سوزاں
پھر شمعِ ہدایت کا تو پروانہ بنا دے!
یہ فقط چند مثالیں ہیں۔ویسے موصوف کا ایک ایک شعر ان کے اور حکیم الامت علامہ اقبال کے مابین عمیق تعلق اور گہری مشابہت کی ناقابل تردید دلیل ہے۔ سرور جیسے ایک غیر اہل زبان کا علامہ اقبال جیسے لافانی شہرت کے حامل شاعر جنہیں ارباب خرد نے پیغمبر سخن کا درجہ دیا ہے، سے ان کے افکار کی بلند پروازیوں اور نظریات کی پیچیدگیوں میں اس حد تک مشابہت کی کوشش اور اس میں قدرے کامیابی یقینا قابل صد تعریف ولائق ہزار ستائش ہے۔
محمد صدام حسین پروازؔ