ویلنٹائن ڈے:انگریز کی چھوڑی ہوئی ایک پھلجھڑی
انسان فطرتاً جلد باز اور جدت پسند ہوتا ہے۔اگر اپنی عقل سے احکامِ شریعت کو سمجھ کر اس کے دائرہ میں زندگی بسر نہ کرے تو یہ دو عادتیں اسے قدم قدم پر برائی میں مبتلا کرتی رہتی ہیں اور اسے اپنے کئے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔بُرائی کے بھنور میں ایسا پھنسا رہتا ہے کہ اس سے نکلنا اس کے لئے بے حد دشوار ہو جاتا ہے۔پھر ایک فطری عادت چونکہ مل جل کر زندگی بسر کرنے کی بھی اس میں موجود ہے۔اس لئے دوسروں کے ساتھ رہنا بھی اس کے لئے ضروری ہے اور دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ کافر بھی بستے ہیں اور بڑی تعداد میں بستے ہیں۔مسلمانوں میں نیک اور نافرمان دونوں طرح کے ہوتے ہیں اس لئے معاشرتی زندگی میں اس بگاڑ کے اسباب زیادہ اور سدھار کے کم دستیاب ہوتے ہیں۔موجودہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں جب میڈیا کی بڑی کمپنیوں کے مقاصد میں برائیاں،بدکرداریاں،بداخلاقیاں عام کرنا شامل ہے۔نفسانی لذات وشہوات کو دکھا دکھا کر لوگوں کا سکون برباد کرنا اور ان کی طبیعتوں میں ہیجان برپا کئے رکھنا ان کے اہداف میں سے ہے۔منظم طریقہ سے بُرائی کی نشر واشاعت کا کام بہت تیزی سے ہورہا ہے۔جس سے اغیار کے طور طریقہ اور نت نئی نافرمانیاں منٹوں،سیکنڈوں میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔اس لئے معاشرہ میں تباہ کن اثرات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔زیادہ ظاہر ہو رہے ہیں۔پھر خرابیوں اور اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں:اول جو مالی لحاظ سے آسودہ حال تعیش پسند،کر وفر،جاه وحشمت کے ساتھ رہنے والے۔دوم:جو عقل کے لحاظ سے کمزور اور غیر سمجھدار ہے۔عقل کے لحاظ سے کمزور لوگ اس لئے اخلاقی برائیوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں کہ اپنے بھلے برے سے کما حقہ واقف نہیں ہوتے۔اس لئے ان سے عقل کے لحاظ سے فائق طبقہ جب زور وشور سے اپنا پیغام ان میں نشر کرتا ہے تو اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔چونکہ بُرائی کی دعوت دینے والے زیادہ ہوتے ہیں اس لئے برائی عوام میں بہت جلد وسیع پیمانے پر پھیلتی ہے اور بچانے والے اگرچہ انتہائی عقلمند دیندار ہوں۔چونکہ کم ہوتے ہیں اس لئے برائی سے بچنے والوں کی تعداد تھوڑی ہوتی ہے۔
ویلنٹائن ڈے کا پس منظر:
قارئین!ویلنٹائن ڈے کا تاریخی پس منظر اور اس دن ہونے والی خرافات کا بغور مطالعہ فرمائیں۔تاکہ مسلمانوں پر واضح ہو کہ گناہوں سے بھر پور اس دن کی حقیقت کیا ہے؟کہا جاتا ہے کہ ایک پادری جس کا نام ویلنٹائن تھا۔تیسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ کلاڈیس ثانی کے زیرِ حکومت رہتا تھا۔کسی نافرمانی کی بناء پر بادشاہ نے پادری کو جیل میں ڈال دیا،پادری اور جیلر کی لڑکی کے مابین عشق ہوگیا حتی کہ لڑکی نے اس عشق میں اپنا مذہب چھوڑ کر پادری کا مذہب نصرانیت قبول کر لیا۔اب لڑکی روزانہ ایک سرخ گلاب لیکر پادری سے ملنے آتی۔بادشاہ کو جب ان باتوں کا علم ہوا تو اس نے پادری کو پھانسی دینے کا حکم صادر کر دیا۔جب پادری کو اس بات کا علم ہوا کہ بادشاہ نے اس کی پھانسی کا حکم دیدیا ہے۔تو اس نے اپنے آخری لمحات اپنی معشوقہ کے ساتھ گزرنے کا ارادہ کیا اور اس کے لئے ایک کارڈ اس نے اپنی من پر یہ تحریر تھا۔مخلص ویلنٹائن کی طرف بھیجا جس پر معشوقہ کے نام سے۔بالآخر 14 فروری کو اس پادری کو پھانسی دیدی گئی اس کے بعد سے ہر 14 فروری کو یہ محبت کا دن اس پادری کے نام ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس تہوار کو منانے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے بے پردگی و۔بےحیائی کے ساتھ میل ملاپ،تحفے،تحائف کے لین دین سے لے کر فحاشی وعریانی کی ہر قسم کا مظاہرہ کھلے عام یا چوری چھپے جس کا جتنا بس چلتا ہے عام دیکھا سنا جاتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق فیملی پلانگ کی ادویات عام دنوں کے مقابلے ویلنٹائن ڈے میں کئی گنا زیادہ بکتی ہیں اور خریدنے والوں میں اکثریت نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔گفٹ شاپس اور پھولوں کی دکان میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ان اشیاء کو خریدنے والے بھی نو جوان لڑکے لڑکیاں ہوتی ہیں۔
مشرقی اقدار کے حامل ممالک میں کھلی چھوٹ نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان جوڑوں کو محفوظ مقام کی تلاش ہوتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے اس دن ہوٹلز کی بلنگ عام دنوں کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے اور بلنگ کرانے والے رنگ رلیاں منانے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں ہوتی ہیں۔شراب کا بے تحاشہ کاروبار ہوتا ہے۔ساحلِ سمندر پر بے پردگی اور بے حیائی کا ایک نیا سمندر دکھائی دیتا ہے۔مغربی ممالک میں جہاں غیر مسلم مادر پدر آزادی کے ساتھ رہتے ہیں اور فحاشی و عریانی و جنسی بے راہ روی کو وہاں ہر طرح کی قانونی چھوٹ حاصل ہے۔اس دن کی دھما چوکڑی سے بعض اوقات وہ بھی پریشان ہو جاتے ہیں اور اس کے خلاف بعض اوقات کہیں کہیں سے دبی دبی صدائے احتجاج بلند ہوتی رہتی ہے۔جیسا کہ انگلینڈ میں اس کی مخالفت میں احتجاج کیا گیا اور احتجاج کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس دن کی بدولت انگلینڈ کے ایک پرائمری اسکول میں 10 سال کی 39 بچیاں حاملہ ہوئیں۔غور کیجئے یہ تو پرائمری اسکول کی دس سالہ بچیوں کے ساتھ سفاکیت کی خبر ہے وہاں کے نوجوانوں لڑکے لڑکیوں کے ناجائز تعلقات اور اس کے نتیجے میں حمل ٹھہرنے اور اسقاط حمل کے واقعات کی تعداد پھر کتنی ہوگی اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
انتہائی دکھ اور افسوس کی بات یہ ہےکہ اس دن انگریز کی چھوڑی ہوئی پھلجھڑی کو جلانے اور اغیار کی طرح بے حیائی کے ساتھ منانے والے بہت سے مسلمان بھی الله رب العزت اور اس کے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے عطا کئے ہوئے پاکیزہ احکامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے کھلم کھلا گناہوں کا ارتکاب کر کے نہ صرف یہ کہ اپنے نامہ اعمال کی سیاہی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ مسلم معاشرے کی پاکیزگی کو بھی ان بے ہودگیوں سے ناپاک و آلودہ کرتے ہیں۔بدنگاہی،بے پردگی،فحاشی عریانی،اجنبی لڑکے لڑکیوں کا میل ملاپ ہنسی مذاق،اس ناجائز تعلق کو مضبوط رکھنے کے لئے تحائف کا تبادلہ اور آگے زنا اور دوائی کرنا تک کی نوبتیں،یہ سب وہ باتیں ہیں جو اس روز عصیاں زور وشور سے جاری رہتی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کے ناجائز وحرام ہونے میں کسی مسلمان کو ذرہ بھر بھی شبہ نہیں ہو سکتا۔قرآن کریم کی آیات بینات اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے واضح ارشادات سے ان اُمور کی حرمت ومذمت ثابت ہے۔مگر چونکہ ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو دینی نقطہ نظر سے سمجھایا جائے اور اس دن کی خرافات کے ساتھ اس کو منانے کی شناعت وبرائی سے انہیں آگاہ کرکے ان کے دلوں میں خوفِ خدا اور شرمِ مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم پیدا کی جائے تا کہ وہ ان ناپاکیوں سے تائب ہو کر اپنے افکار وکردار کی اصلاح میں مشغول ہوکر بروز قیامت سرخرو ہوں۔لہٰذا!ترغیب وترہیب کے لئے چند باتیں دین سے محبت کرنے والے اپنے اسلامی بھائیوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔خود بھی پڑھیں اور اس کو عام کریں تا کہ عَامَّةُ الْمُسْلِمِین کے دین ودنیا کا بھلا ہو۔اب اپنی پاکیزہ شریعت کے احکامات ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح بدنگاہی بے حیائی،بے پردگی اور ہر قسم کی فحاشی وعریانی کی مذمت قرآن کریم کی آیات اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات میں بیان ہوئی ہے۔توجہ کے ساتھ پڑھنا سننا اور سمجھنا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔اس لئے اتنی ہمت ضرور کیجئے آیات واحادیث کو اپنے دل میں داخل ہونے کا موقع دیجئے الله رب العزت نے چاہا تو توبہ کی توفیق کے ساتھ ساتھ پر ہیز گاری کی دولت اور اتباع سنت کی توفیق بھی مل جائے گی۔
ویلنٹائن والے دن اجنبی مرد وعورت کے مابین جو ناجائز محبت کا تعلق قائم ہوتا ہے اور آپس میں جو تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے فقہاء کرام فرماتے ہیں:یہ رشوت کے حکم میں داخل ہے۔اس لئے ناجائز وحرام ہے۔ایسے گفٹ لینا اور دینا دونوں ہی نا جائز وحرام ہیں اگر کسی نے یہ تحائف لئے ہیں تو اس پر توبہ کے ساتھ ساتھ یہ تحائف واپس کرنا بھی لازم ہے۔بحر الرائق میں ہے:،،عاشق و معشوق(ناجائز محبت میں گرفتار ) آپس میں ایک دوسرے کو جو(تحالف)دیتے ہیں وہ رشوت ہے ان کا واپس کرنا واجب ہے اور وہ ملکیت میں داخل نہیں ہوتے ۔(بحر الرائق)غور کیجئے!اس قسم کے آزاد معاشرے اور اس میں جنم لینی والی برائیوں سے مسلم معاشرہ کیوں محروم ہے۔اس فکر میں مغربی مفکرین اور اسلام دشمن قوتیں ہر لمحہ مصروف رہتی ہیں اور ویلنٹائن ڈے جیسے دنوں کے نام پر اپنی ان خرافات سے مسلم دنیا کو بھی روشناس کرانا چاہتی ہیں اور جانتی ہیں کہ موجودہ حالات میں اکثر مسلمان دین سے اور دینی تعلیمات سے دور ہیں اور نفس وشیطان کے مکر وفریب میں بآسانی مبتلا ہو جاتے ہیں۔اس لئے ایک ایک دن کی حد تک ہی سہی جب ہماری طرح جدت ولذت کے نشہ میں مدہوش ہو کر بے حیائی و بے پردگی اور وہ بھی سر عام کریں گے تو پھر اس لت سے پیچھا چھڑانا ان کے لئے مشکل ہو جائے گا اور آہستہ آہستہ یہ برائیاں ان کے معاشرے میں بھی جڑ پکڑ لیں گی اور دیمک کی طرح اسے چاٹتی رہیں گی۔ چونکہ دینی و روحانی پاکیزگی سے روشناس کرانے والے علمائے حق جو ان کے معالج بھی ہیں اور رہبر بھی ان سے تو پہلے ہی قوم دور ہے۔اس لئے ان کے سمجھانے کا ان پر اثر تو کم ہی ہوتا ہے۔ان بے حیائیوں کے باعث ان سے مزید دور ہو کر ان کی برکات سے مزید محروم ہو جائے گی پھر اس لا علاج مرض کا علاج انکے بس میں نہ رہے گا۔بد قسمتی سے کافی حد تک وہ اپنے اس ناپاک منصوبے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔شرم وحیا کے پیکر،نبیوں کے سرور حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والو یاد رکھو!حقیقی ترقی ان یورپین خرافات میں نہیں بلکہ اسلامی برکات میں ہے۔مغربی معاشرے کی مادر پدر آزادی کی یہ جھلکیاں اس لئے نقل کی ہیں تا کہ جو لوگ یہ کہہ کر سمجھانے والوں سے جان چھڑا لیتے ہیں کہ تھوڑا بہت تو چلتا ہے،تہوار ہی تو ہے،ایک ہی دن کی تو بات ہے،ہم کو نسے پاک وصاف ہیں اس طرح کے بیبا کی اور نا انصافی کے ساتھ جملے ادا کرنے والوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ دین سے محبت اور اس کے احکام اور مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کے دیئے ہوئے نظام کے مطابق زندگی گزار نے سے محبت کرنے والا طبقہ ان کے بھلے کی بات کر رہا ہے اگر وہ آج ہنس ہنس کر گناہ کریں گے تو کل ان کی اولاد یا اولاد کی اولاد ان مصائب اور گناہوں کی نحوست کی بناء پر دنیا میں بھی آفات کا شکار ہوں گی اور آخرت کی تباہی اس پر مزید ہوگی۔
قارئین!آپ سے اتنی گزارش آخر میں ضرور کرونگا کہ غیر مسلم تو ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی توہین کے درپے ہوں اور آئے دن مسلمانوں کے دلوں کو توہین آمیز خاکوں سے چھلنی کریں اور مسلمان جو یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ سرکار کے نام پر جان بھی قربان ہے اور ہر بے ادب کی بے ادبی اور شرارت پر سراپا احتجاج ہوتے ہیں اور حقیقتاً اور ایماناً ہماری عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ان کی مبارک پرنور ہستی سے مسلمانوں کو جذباتی وابستگی ہے اور ان سے وہ اپنے ماں باپ اولاد بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں اور اس کا حکم حدیث شریف میں مسلمانوں کو دیا بھی گیا ہے تو جان سے بڑھ کر عزیز ہستی الله کے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی شان میں ادنی توہین برداشت نہ کر سکنا بلاشبہ ان کے ایمان کا تقاضا ہے۔مگر اس پہلو پر تو غور کیجئے کہ آج کے مسلمان بالخصوص ہمارے نوجوان انہیں غیر مسلموں کے ایجاد کردہ گناہوں سے بھر پور رسم ورواج اور دنوں،تہواروں کے ناپاک داروں کا شکار ہو جائیں جیسا کہ ویلنٹائن ڈے اور اس روز بدنگاہی بے پردگی ناجائز تحائف کا لین دین اور شراب و کباب،زنا ولواطت اور اس کے دواعی ہر قسم کی برائیاں عام ہوتی ہیں اور مسلمان بھی اس میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔اس لئے خدارا ہوش کریں کہ شیطان کے آلہ کاروں کے نقش قدم پر چلنا جہنم کی راہ ہے۔لہٰذا الله رب العزت سے ڈرتے ہوئے اس کے محبوب سے شرم کرتے ہوئے اس دن اور اس کے علاوہ زندگی بھر بے حیائی بے پردگی فسق وفجور سے توبہ کر لیجئے اور آئندہ شریعت کے احکامات کی پابندی ستھری اسلامی زندگی گزارنے کا پختہ عزم کر لیجئے۔