راجیہ سبھا کے چیئرمین کو ہٹانے کے مقصد سے تحریک عدم اعتماد لانےکے لیے کم از کم 14 دن پہلے نوٹس دیا جانا ضروری ہوتا ہے اور موجودہ سرمائی اجلاس 20 دسمبر تک ہی چلنا ہے۔
پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس ہنگامہ کی وجہ سے لگاتار متاثر ہو رہا ہے۔ اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ ایک طرف لوک سبھا میں ان کی باتیں نہ سنے جانے کا الزام عائد کر رہے ہیں، دوسری طرف راجیہ سبھا چیئرمین پر ہی جانبداری کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ راجیہ سبھا چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا نوٹس ایوان بالا کے سکریٹریٹ میں جمع کیا تھا، لیکن اب اس نوٹس کو خارج کیے جانے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے جگدیپ دھنکھڑ کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کے نوٹس کو خارج کر دیا ہے۔ یہ نوٹس اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ نے آرٹیکل 67 بی کے تحت راجیہ سبھا سکریٹری پی سی مودی کو سونپا تھا۔ ملک میں 72 سالہ پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں راجیہ سبھا چیئرمین کے خلاف کبھی تحریک مواخذہ نہیں آیا تھا۔ لیکن اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ نے بہت مجبوری میں یہ نوٹس دینے کی بات کہی تھی۔ اس نوٹس پر اپوزیشن کی طرف سے 60 اراکین پارلیمنٹ نے دستخط کیے تھے۔
تحریک عدم اعتماد کا نوٹس خارج کیے جانے کے پیچھے کی وجوہات بھی سامنے آ رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ راجیہ سبھا کے چیئرمین کو ہٹانے کے مقصد سے تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے کم از کم 14 دن پہلے نوٹس دیا جانا ضروری ہوتا ہے، جبکہ پارلیمنٹ کا رواں سرمائی اجلاس 20 دسمبر تک ہی چلنا ہے۔ ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے چیئرمین کو ہٹانے کے لیے پیش کردہ نوٹس کئی لحاظ سے نامناسب قرار دیا۔ ہری ونش کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا نوٹس دلائل سے بالاتر ہے، جس کا مقصد محض شہرت حاصل کرنا ہے۔ انھوں نے اپوزیشن کے اس نوٹس کو بے معنی ٹھہرایا اور نائب صدر جیسے اعلیٰ آئینی عہدہ کی بے عزتی بھی بتایا۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ یہ نوٹس نامناسب، خامیوں بھرا اور موجودہ نائب صدر کے وقار کو مجروح کرنے کے لیے جلدبازی میں تیار کیا گیا ہے۔