وطن عزیز پاکستان جو ہمیں اپنے اسلاف کی محنتوں اور قربانیوں کی بدولت ملا ہے،ایک مقدس امانت ہے جسے اگلی نسلوں کے محفوظ ہاتھوں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس ملک میں مختلف صوبائی عصبیعتوں ، اقوام ،قبائل ،نسلیں، زبانیں ، مسالک اور تہذیب و ثقافت کےحامل لوگ رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ ملک رنگ برنگ خوبصورت پھولوں کا گلدستہ اور درخشاں و تابندہ ستاروں کا ایک جھلملاتا جھرمٹ ہے۔
ان سب گروہان ِ انسانی کو قوم بننے میں چھہتر سال لگے ہیں۔ اور اس درمیانی وقفے میں ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی رنجشوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مزید احتیاط اور توجہ کی ضرورت ہے۔تاکہ یہ فاصلے کم ہوں اور ملک دشمن عناصر کو مزید پھوٹ اور رخنہ اندازی کا موقع نہ ملے۔
اس میں شک نہیں کہ جو بھی حکومت برسراقتدار ہو اس کے پاس اپنی مخصوص سیاسی وابستگی والی عوام کے علاوہ ریاستی اداروں کی طاقت تو ہوتی ہی ہے۔ ایسی حکومتیں اگر مشکلات اور امتحانوں میں تھوڑی سے دانش مندی کا مظاہرہ کریں تو باقی رعایا کا بھی دل جیت لیتی ہے اور پھر ان کے متوازی فیصلوں کو اندرون اور بیرون ملک بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔صرف جذباتیت اور طاقتوں کے نشے ہر دو طرف کسی بھی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوتا ہے۔ بعض اوقات زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جب حق کو قائم رکھنے کے لیئے حق سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔
اسلام کی تاریخ میں ہمیں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ ٗ و علیہ السلام کے دور میں دو خواتین ایک بچے کی ملکیت کی دعویدار تھیں۔ جب ان کا مقدمہ ان کے دربار میں آیا تو انہوں نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ بچے کو دو حصوں میں تقسیم کر دو اور دونوں عورتوں میں برابر بانٹ دو ۔جس پر ایک عورت تو مطمعن ہو گئی جب کہ حقیقی ماں نے کہا کہ بچے کو کچھ نہ کہا جاۓ اسے سارا ہی دے دو۔ مجھے بچے کی زندگی عزیر ہے ۔یوں بچہ اصل ماں کے حوالے کیا گیا۔ اسے کہتے ہیں حق کی سلامتی کی خاطر حق سے دست بردار ہونا۔
دلوں کو جوڑنے اور محبتوں کو پروان چڑھانے میں کئی سال لگتے ہیں جب کہ نفرتیں اور فاصلے پیدا کرنے والے فیصلے منٹوں میں ہو جاتے ہیں۔اب اسے ہماری بدقسمتی کہیں کہ موجودہ خلفشار میں وہی دو صوبوں کےافرادنمایاں تعداد میں شریک احتجاج تھے جو پہلے ہی وفاق سے ناراض رہتے تھے۔کتنا ہی بہتر ہوتا کہ معاملات کو افہام وتفہیم کے ذریعے حل کیا جاتا اور دارلحکومت کی خوبصورت فضا کو بارود کی بو سے مسموم نہ کیا جاتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ آۓ روز کے احتجاج ریلیاں اور تناؤ کسی مہذب معاشرے کا شیوہ نہیں۔ایک طرف ملکی ترقی کا پہیہ جام ہو جاتا ہے اور ملکی انفرا سٹکچرز کی تباہی ہوتی ہے۔ شاہراہیں اور دیگر سڑکیں تباہ ہو جاتی ہیں۔
ہم نے اپنے آئین میں بنیادی انسانی حقوق کے باب میں تحریر، تقریر اور احتجاج اور جلسے جلوسوں کی اجازت تو لکھ دی ہے۔ دوسرے ممالک کی دیکھا دیکھی ہم نے آئین کو بنا لیا مگر ہم نے یہ کہیں سے نہیں سیکھا ہے کہ ان احتجاجی جلسوں کو ڈیل کیسے کرنا ہے۔ ہمارا شہری جب امریکہ انگلینڈ اور یورپ میں کسی احتجاج کو دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ وہاں کی گورنمنٹ کی طرح ہمیں باقاعدہ حفاظت اور میڈیا میں کوریج دی جاۓ گی اور ہمارے مسئلے کو اجاگر کیا جاۓ گا۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ہمسایوں یعنی انڈیا اور بنگلہ دیش میں تو کچھ اور طریقہ استعمال ہوتا ہے۔ اور وہی نسخہ جات یہاں آزماۓ جائیں گے۔ کیونکہ یہاں حکومتیں بھی قائم باش اور ان کی انائیں بھی قائم باش رہتی ہیں۔ کچھ ہمارے احتجاج کرنے والے بھی ضرورت سے زیادہ ہوشیار ہو جاتے ہیں۔دوسرے ممالک میں ایک لیڈر ہوتا ہے۔اور وہ ساری ہدایات دیتا ہے ۔اپنے افراد کو ڈسپلن اور کمیونٹی کے حقوق بھی بتاتا ہے مگر یہاں پر ہر دس بندوں میں ایک لیڈر ہوتا ہے۔ اگر لیڈر دس کام کرنے کو کہتا ہے تو کارکن بارہ سر انجام دے کر نمایاں ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے یہی دیکھنے میں آیا ہے۔دوسری بات کہ جہاں آئین میں یہ حقوق دیے گئے ہیں وہاں ان کے لیے ضمنی قوانین اور ایس اوپی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے ماضی اور حال سے سبق سیکھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔اللہ پاک ہمارے ملک پر رحم فرماۓ۔
سبطین ضیا رضوی