
سنا تھا دیکھنا، سننا، محسوس کرنا، بولنا، سانس لینا، سونگنا، صحت بھی رزق ہیں۔ جب پیدا ہوا تو سب سے پہلے سانس لینا شروع کیا، پھر رو کر بولنا شروع کیا پھر کان میں اذان کی آواز آئی تو سننا شروع کیا پھر کچھ دن بعد آنکھیں کھلی تو دیکھنا شروع کیا۔ میرے رب نے ہر قسم کے رزق سے مالا مال کیا۔ اور ہرچیز میں کمال تک پہنچایا۔ یہ سب میرے رب کے کرم تھے کہ اس نے کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی کا نمونہ بنادیا، گاؤں کا ایک بیوقوف بچہ گاؤں سے نکل کر شہر میں آگیا عقل پھر بھی نہیں ائی۔ پھر اس نے وہ سب سنا، دیکھا، محسوس کیا جو کم لوگوں کو سننا، دیکھنا اور محسوس کرنا نصیب ہوا۔ میرے رب نےطرح طرح کے ہنر سکھائے ، کبھی مقرر کبھی سٹیج کا فنکار، کبھی استاد، کبھی طالب علم، کبھی فوٹوگرافر ، کبھی لکھاری، کبھی شاعر، کبھی فلم ڈائریکٹر، کبھی ویلاگر ، کبھی پینٹر، کبھی بیٹا ، کبھی بھائی، کبھی باپ، کبھی شوہر،کبھی دوست، کبھی دشمن پتہ نہیں کن کن شعبوں اور رشتوں سے روشناس کروایا۔
یہ سلسلے چلتے جارہے تھے اور اب چیزیں جواب دینا شروع ہوگئیں پہل لبلبے نے کی اور زندگی بھر کا میٹھا 30 سال عمر تک ہی کھا لیا اور شوگر کے مریض ہوگئے، زندگی سے مٹھاس ختم ہوگئی لیکن ہمیشہ رب کا شکر ادا کیا اور ان چیزوں کی کبھی پرواہ نہیں کی جہد مسلسل جاری رہی اگلا جواب جناب جگر نے دے دیا اور یوں زندگی کے 51 سال مکمل ہوئے الحمدللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسکی بھی پرواہ نہیں کی اور جگر نیا لگ گیا شکریہ بیٹی کا جس نے جگر عطیہ کیا۔ اور شکریہ گھر والوں کا دوستوں کا جنہوں نے اس موقع پر ساتھ دیا، شکریہ میرے ادارے پاکستان ٹیلی ویژن کا جس نے اس سلسلے میں میری مالی معاونت کی۔اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس امتحان سے بھی آسانی سے نکال لیا۔ زندگی گزرتی جارہی تھی اور پھر ٹرانسپلانٹ کی سرجری ہرنیا میں تبدیل ہوگئی اور دوسال بعد پھر ایک طویل سرجری سے گزرنا پڑا ، گزر تو گئے پر آواز بند ہوگئی چھ ماہ بعد آواز تو بحال ہوگئی پر مجھے بولنا سننا بھولتا جارہا ہے۔ میں اس دوران چار کتابیں بھی لکھ چکا ہوں، 13 فوٹوگرافی کی نمائشیں بھی منعقد کر چکا ہوں۔ بہت سی فلمیں ڈائریکٹ کر چکا ہوں۔ ہزاروں طلبہ و طالبات کو تعلیم دے چکا ہوں، پر مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ میں اپنے حصے سے زیادہ لکھ چکا ہوں، بول چکا ہوں ،دیکھ چکا ہوں، پڑھ چکا ہوں،سوچ چکا ہوں، محسوس کر چکا ہوں اور اب آہستہ آہستہ یہ سب رزق مجھ پر کم ہوتے جارہے ہیں، اب مجھے بہت سے کام آتے ہیں پر میں اس تگ و دو میں کسی کام کا نہیں رہا۔ شاید میں نے مختلف فنون سیکھنے میں زندگی ضائع کردی۔ نہ اپنے کام آیا نہ ملک و ملت کے اور زندگی گزار دی ۔ مجھ سے کوئی بھی تو خوش نہیں۔ ابھی عمر کے آخری حصے میں رب کو راضی کرنے کا خیال آیا ہے اب اس ہنر کو سیکھ رہا ہوں پانچ وقت سجدے کرتا ہوں روتا ہوں پتہ نہیں یہ ہنر کب آئے گا اور کب قبولیت کے مقام تک پہنچے گا۔
مجھے لگتا ہے گاؤں کے بیوقوف بچے کو گاؤں میں ہی رہنا چاہیے تھا وہ شہر کی چکا چوند کی نظر ہوگیا۔ رزق تو گاؤں میں بھی سب تھے اور لوگ بھی۔ پھر ناجانے میں شہر کیوں آگیا ۔ ظلم یہ ہوا کہ گاؤں کا گھر بھی بیچ دیا۔ ان پیسوں سے بھی ہنر سیکھ لیے۔ اب وقت تبدیل ہو رہا ہے سب کچھ سوشل میڈیا پر ہورہا ہے سنا ہے دنیا ایک گلوبل ویلج ہے پر یہ میرے گاؤں جیسا تو ہرگز نہیں میرے گاؤں کے لوگ تو سچے اور کھرے تھے یہ تو جھوٹ سے بھرا پڑا ہے۔ اب نیا دور آگیا ہے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا پر یہ بھی شغل ہی ہے جب اس کو کہتا ہوں ایک گاؤں بناؤ بلکل میرے گاؤں جیسا درمیان میں کنواں کنویں کے چاروں طرف گلیاں ۔ گاؤں کے ایک طرف لڑکوں کا سکول دوسری طرف لڑکیوں کا سکول ۔ گاؤں کے ایک طرف تین فٹ کا پکا کھالا، گاؤں کی دوسری کھیت ، پر یہ سب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کیلئے ممکن نہیں کے یہ میرے گاؤں جیسا گاؤں بنائے ۔ یہ پھر ایک آرٹیفیشل گاؤں بنادیتا ہے جو بلکل بھی میرے گاؤں جیسا نہیں اور اس میں تو میں بھی نظر نہیں آتا سب بچے سفید رنگ کے ہیں میرے جیسا کالا تو کوئی ہے ہی کوئی نہیں، گاؤں کا گوردوارہ بھی کہیں نظر نہیں آرہا ، نہ ہی چاچے شفیع صاحب کی دوکان نظر آرہی ہی، نہ ہی حاجی طفیل صاحب کی بیٹھک نظر آرہی ہے ۔ پتہ نہیں سب آرٹیفیشل آرٹیفیشل کیوں ہے کوئی تو سمجھائے، جو آرٹیفیشل انٹیلیجنس میرے گاؤں جیسا گاؤں نہیں بنا سکتی وہ کیا انقلاب لائے گی۔ مجھے لگتا ہے اب سب کچھ آرٹیفیشل ہی ہوگا دیکھنا، سننا، محسوس کرنا۔
مِلا ہے جب سے مجھے اِختیار لفظوں پر
میں سوچتا ہوں مگر گُفتگُو نہیں کرتا