سال پہلے کی بات ہے میں آفس تھا تو اک ماں جی اکاونٹ کھلوانے آئیں، بنیادی چیزیں پوچھنے کے بعد میں نے ان سے گھر کا پتہ پوچھا اور کہا کہ گھر اپنا ہے یا کرایہ پہ رہتے ہیں ماں جی کہنے لگیں بیٹا عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا، مجھے ایک دم سے جیسے کرنٹ لگا اور میں شرمندہ بھی ہوا کہ میں نے ایسا سوال ہی کیوں کیا۔ صورت حال کو نارمل کرنے کے لیئے میں نے ماں جی سے کہا نہیں ماں جی گھر تو ماں سے ہی ہوتا بلکہ ماں کا ہی ہوتا ہے وہ بڑے اطمینان سے بولیں نہیں بیٹا کوئی نہیں ہوتا، یہ وہ تسلیاں ہیں جو ہم عورت کو نسل در نسل دیتے آ رہے ہیں اور اس کا استخصال کر رہے ہیں۔
وہ بتانے لگیں بیٹا میں چار پانچ سال کی تھی تو میرے والد صاب میری والدہ سے کہا کرتے تھے بیٹیاں پرائے گھر کی امانت ہوتی ہیں ، یہ اور ایسے جملے تواتر کے ساتھ سننے کو ملتے تھے۔ پھر میں سولہ سترہ سال کی ہوئی تو جب کبھی ماں سے کسی چیز کی فرمائش کی تو ماں ہمیشہ یہی کہتی اگلے گھر جاو گی تو ساری خواشیں پوری کر لینا، نا میک اپ کی اجازت نا اچھا اور مہنگا لباس پہننے کی اجازت نا بازار جانے کی اجازت بس ایک ہی بات سننے کو ملتی کہ تم پرائی امانت ہو۔
مختصرا یہ کہ شادی ہو گئی اور خاوند کے ساتھ جوائنٹ فیملی میں رہنے لگی اور میں نے اپنے گھر کے خواب دیکھنے شروع کر دئیے اور خاوند کو بھی قائل کر لیا کہ ہم اپنا گھر بنائیں گے، خاوند ملک سے باہر ہوتے تھے، مخنت مزدوری اور نا جانے کتنی خواہشوں کو کچل کر بہت مشکل سے گھر بنایا، ابھی دو ماہ ہوئے تھے نئے گھر گئے کہ خاوند کا انتقال ہو گیا۔ عدت کے بعد سسرال والوں نے گھر پہ قبضہ کر لیا اور ہمیں گھر سے نکال دیا، میرے دو ہی بچے تھے اک بیٹا اور بیٹی ان کو لے کر واپس اپنے بوڑھے ماں باپ کے پاس آ گئی۔
بوڑھے ماں باپ بڑے بھائی کے ساتھ رہتے تھے، کچھ عرصہ بعد ماں نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے اور چلے جانے کا کہا کہ میری وجہ سے بھائی کا گھر خراب ہو رہا ہے اگر آپ نا گئی تو وہ ہمیں بھی نکال دے گا۔
میں نے دونوں بچوں کو ساتھ لیا اور ایک کرائےکے گھر میں رہنے لگی، کپڑے سلائی کر کے بڑے بیٹے کو باہر کے ملک بھیجا، تھوڑے عرصے بعد بیٹی کی شادی کر دی، بیٹے کی اچھی آمدنی تھی تو میں ایک دفعہ پھر اپنے گھر کا خواب دیکھنے لگی اور بیٹے نے میرے اس خواب کی تکمیل کے لیئے شہر کے اچھے ایریا میں گھر لے لیا اور میں نے بیٹے کی شادی کر دی ، اس نےشادی کے تھوڑے عرصے بعد بیگم کو اپنے پاس بیرون ملک بلا لیا اور چند مہینوں بعد مجھے کہنے لگے کہ ماں آپ نے اتنے بڑے گھر کا کیا کرنا ہم اسے رینٹ پہ دے دیتے ہیں جو آمدن آئے گی اس کا کچھ حصہ آپ رکھ لینا، مجھے پھر وہ گھر چھوڑنا پڑا، آج کل میں اپنی بیٹی کے گھر زندگی کے دن پورے کر رہی ہوں۔ اپنے گھر کی تلاش میں میں نے ستر سال گزار دئیے ہیں لیکن آج تک مجھے اپنا گھر نصیب نہی ہوا۔
بیٹا یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ عورت کا کوئی گھر نہی ہوتا۔
عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا، یہ ایک ایسا جملہ ہے جو صدیوں سے مختلف سماجوں میں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ یہ جملہ عورت کی زندگی اور ہمارے معاشرے میں اس کے مقام کی عکاسی کرتا ہے۔ اس جملےمیں پوشیدہ درد، ناانصافی، اور معاشرتی رویوں کی گہری داستان موجود ہے جو آج بھی ہمارے معاشرے میں حقیقت کا روپ دھارے ہوئے ہے۔
ہماری ثقافت اور روایات میں عورت کو ایک مرکزی کردار دیا گیا ہے۔ وہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں معاشرت کا ایک اہم ستون ہے، لیکن اس کردار کے باوجود اسے ہمیشہ ایک مکمل، آزاد وجود تسلیم نہیں کیا جاتا۔ شادی سے پہلے وہ والدین کے گھر میں ہوتی ہے، جہاں اسے “پرائی امانت” کہا جاتا ہے، اور شادی کے بعد شوہر کے گھر جاتی ہے، جہاں وہ ہمیشہ “باہر سے آئی ہوئی” سمجھی جاتی ہے،اس طرح ایک عورت کی زندگی مسلسل تبدیلیوں اور نئے ماحول کے ساتھ گزرتی ہے، لیکن کہیں بھی اسے یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ جگہ اس کی اپنی ہے یہ گھر اس کا اپنا ہے۔
شادی کے بعد عورت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے نئے گھر کو اپنا سمجھے، لیکن حقیقت میں وہ ہمیشہ نئے لوگوں اور روایات کے درمیان اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ ساس، نند، اور دیگر رشتہ داروں کے درمیان اسے نہ صرف اپنی حیثیت منوانی ہوتی ہے بلکہ گھر کے ہر فرد کی خواہشات اور مطالبات کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات اس کے جذبات، خواب اور ضروریات پسِ پشت ڈال دی جاتی ہیں۔
عورت کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ وہ نئے خاندان میں خود کو قابلِ قبول بنائے اور اسی دوران اپنے شوہر کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم کرے لیکن معاشرتی دباؤ، توقعات اور روایات کے بوجھ تلے اسے اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کوئی اپنا گھر نہیں ہے۔
معاشرتی نظام میں جائیداد کا سوال بھی عورت کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے ہمارے معاشرے میں عورت کو جائیداد کا مکمل حق بھی نہیں دیا جاتا والدین کی جائیداد میں اسے وراثت کا حق ملنا مشکل ہوتا ہے اگر کبھی کہیں مل بھی جائے تو دینے والے اس کا سوشل بائکاٹ کر دیتے ہیں کہ آپ نے یہ حصہ لیا کیوں بلکہ طعنے دئیے جاتے ہیں کہ اس عورت نے بھائیوں سے جائیداد میں حصہ لیا ہے، اکثر اس جائیداد کے چکروں میں خواتین بچاری ماری بھی جاتی ہیں، اور دوسرا شوہر کی جائیداد میں بھی اکثر اس کا حصہ یا تو کم ہوتا ہے یا اسے مکمل طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک عورت کے پاس معاشی طور پر خود مختار ہونے کے مواقع کم ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ کسی نہ کسی پر منحصر رہتی ہے یا اراداتا اسے محکوم رکھا جاتا ہے۔
یہ صورت حال اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے معاشرتی نظام میں عورت کو مکمل شہری تسلیم نہیں کیا جاتا اور وہ ساری زندگی معاشی حقوق کے لئے جدوجہد کرتی رہتی ہے۔ جائیداد کا حق اس کے لئے ایک علامتی گھر ہو سکتا ہے، جہاں وہ اپنی خودمختاری اور آزادی کا احساس کر سکے لیکن یہ حق بھی اکثر اس سے چھین لیا جاتا ہے۔
تعلیم اور معاشی خود مختاری وہ عوامل ہیں جو عورت کو اپنے گھر کی تعمیر میں مدد دے سکتے ہیں,لیکن ہمارے معاشرے میں عورت کو تعلیم کے مواقع سے جان بوجھ کر محروم رکھا جاتا ہے اور اس کی تعلیم پر کم سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اسے زیادہ تر گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف رکھا جاتا ہے، اس کے نتیجے میں وہ خود مختار نہیں ہو پاتی اور ہمیشہ کسی دوسرے پر فرد پر انحصار کرتی ہے۔
تعلیم اور معاشی خود مختاری ہی عورت کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے وہ ایک ایسا گھر بنا سکتی ہے جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکے اور اسے کسی دوسرے کے احسان یا رحم و کرم پر نہ رہنا پڑے لیکن جب تک اسے یہ مواقع نہیں ملتے وہ خود کو ہمیشہ بے گھر محسوس کرتی ہے۔
اس موضوع کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں معاشرتی سوچ اور رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے عورت کو مکمل شہری تسلیم کیا جائے اور اسے جائیداد، تعلیم، اور معاشی مواقع میں برابر کا حصہ دیا جائے اس کے خوابوں، خواہشات اور جذبات کو اہمیت دی جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو ایک مکمل انسان سمجھ سکے۔
یہ تبدیلی صرف قانون سازی یا معاشی اصلاحات سے نہیں آئے گی، بلکہ ہمارے رویوں میں تبدیلی ضروری ہے۔ عورت کا گھر اسے جذباتی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرتا ہے، اور اسے یہ احساس دیتا ہے کہ وہ کہیں محفوظ ہے۔ ہمیں عورت کو یہ تحفظ دینا ہو گا تاکہ وہ خود کو بے گھر محسوس نہ کرے۔
عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا، یہ صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک گہری حقیقت ہے جو معاشرتی ناانصافی اور صنفی تفریق کی نشاندہی کرتی ہے۔ جب تک ہم اپنے سماجی رویوں میں تبدیلی نہیں لاتے عورت خود کو ہمیشہ کسی نہ کسی حد تک بے گھر محسوس کرتی رہے گی۔ اسے ایک ایسا معاشرتی ڈھانچہ فراہم کرنا ہوگا جہاں وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، “عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا” کا یہ جملہ ہماری معاشرتی حقیقت کا عکاس رہے گا۔