لڑکیوں کو دینی تعلیم کی سخت ضرورت
چوبیس گھنٹے میں انسان کو کھانے کی ضرورت صرف تین مرتبہ پڑتی ہے، بعض اشخاص دو وقت کے کھانے پر ہی گزارہ کر لیتے ہیں، لیکن علم دین کی ضرورت ہر فرد کو ہر وقت پڑتی ہے، موجودہ دور میں قوم کو تعلیم کی جس شدت سے ضرورت ہے اُس کا کوئی منکر نہیں، کیوں کہ قوم کا عروج و زوال علم ہی سے وابستہ ہے، قوم و ملک کی ترقی میں علم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ علم حضرت انسان کو معزز و ممتاز کر دیتا ہے، قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: “یرفع اللہ الذین آمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات” ترجمہ: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علم کی اہمیت و ضرورت کے متعلق ارشاد فرمایا: “طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمہ” ترجمہ: علم دین کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے،
اس حدیث شریف کی تشریح میں سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے: اس حدیث سے مراد وہ علم ہے جس کا سیکھنا فرض عین ہے، فرض عین وہ علم ہوتا ہے جس کی انسان کو اپنے دین میں ضرورت پڑتی ہے، جیسے علم اصول عقائد جس کے اعتقاد سے آدمی مسلمان سنی المذہب بنتا ہے، اور انکار سے کافر یا بدعتی۔ اُس کے بعد علم مسائل صوم و صلوٰۃ جس کی انسان کو عبادات میں ضرورت پڑتی ہے، اس کے علاوہ روز مرہ کی ضروریات کا علم، جس سے اشیاء کا حسن و قبح، حلال و حرام جانا جا سکے۔ (علی ھذا القیاس)
آج ہمارا معاشرہ علم کے اعتبار سے بالکل کورا نظر آتا ہے، بعض لوگ لڑکوں کی پڑھائی لکھائی پر خوب دھیان دیتے ہیں لیکن بچیوں کی تعلیم و تربیت پر بالکل توجہ نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ لڑکیاں پڑھ کر کیا کریں گی، آخر کرنا تو اُنہيں امور خانہ داری ہی ہے، اور بہت سے پڑھاتے تو ہیں لیکن صرف اسکول کالج، دنیوی تعلیم دینا اچھی بات ہے، لیکن ایک مسلمان کے لیے بنیادی طور پر قرآن کریم، اپنے نبی اپنے مذہب کی تعلیمات حاصل کرنا بھی نہایت ضروری ہے، یاد رکھیں، شریعت مطہرہ نے خواتین کے لیے بڑے حقوق رکھے ہیں، اور دینی تعلیم سے آراستہ کرنا یہ اُن کا حق ہے،
اس پر خطر اور پر فتن دور میں تیزی سے بڑھ رہے فتنہ ارتداد کو روکنے کا واحد ذریعہ “دینی تعلیم و تربیت” ہے۔ صرف دنیوی تعلیم پر اکتفا کرنا اور دینی تعلیم کو پس پشت ڈال دینا خطرے سے خالی نہیں، موجودہ دور میں دنیوی تعلیم کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے جس کے نتائج آج اس صورت میں دیکھنے کو ملے کہ سیکڑوں مسلم بچیاں مرتد ہو گئیں، اور غیر مسلموں کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لی، جنتیوں کی صفوں سے نکل کر جہنمیوں کی صفوں میں شامل ہو گئیں، حالانکہ اس طرح کی شادیاں کرنے اور مرتد ہونے والی کئی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہوچکی ہیں۔ ان لوگوں نے خود اپنی تباہی و بربادی کی المناک کہانیاں سنائی ہیں، انہوں نے خود اعتراف کیا کہ ان کا شوہر انہیں اپنے دوستوں کے بھی حوالے کررہا تھا، ہم آئے دن اخبارات، رسائل و جرائد، سوشل میڈیا پر یہ خبریں دیکھتے رہتے ہیں، لیکن پھر بھی ان کیسز میں کمی ہوتی دکھائی نہیں دیتی، آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ میری ناقص عقل کے مطابق اس کا سبب دینی تعلیم سے دور رہنا اور گھر میں دینی ماحول کا نہ ہونا ہے، اگر ہم نے ان کو دینی تعلیم دی ہوتی، اُن کو (عالمہ نہ صحیح لیکن) اتنا تو پڑھایا ہوتا کہ وہ قرآن مجید کو مع ترجمہ اور چند چھوٹی چھوٹی حدیث کی کتابیں پڑھ لیتیں، اُن کو اُن کے مذہب و مسلک کی حقانیت معلوم ہوتی، والدین اُن کو شرم و حیا کا پیکر بناتے، بے شرمی بے حیائی کے بھیانک نتائج سے انہیں واقفیت کراتے تو آج یہ دن ہمیں دیکھنے کو نہ ملتے،
ہماری لڑکیاں ان کے جال میں جن وجوہات سے پھنستی ہیں، ان میں ایک بڑا سبب اختلاط مرد و زن ہے، یہ اختلاط ہر جگہ پر پایا جاتا ہے، کوچنگ کلاسز میں بھی پایا جاتا ہے اور ہوسٹلز میں بھی پایا جاتا ہے، موبائل انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ اختلاط اور عام ہو گیا ہے، پیغام بھیجنے اور موصول کرنے کی مفت سہولت نے اسے اس قدر اس بے حیائی کو بڑھاوا دے دیا ہے کہ گھر والوں کے سامنے لڑکی سوشل میڈیا کے ذریعہ واٹس ایپ، فیسبک، ٹوئیٹر، انسٹاگرام وغیرہ پر لڑکوں سے بات کر رہی ہوتی ہے اور اہل خانہ کو اس بات کی بھنک تک نہیں لگتی، معاملہ تب کھل کر سامنے آتا ہے جب لڑکی جا چکی ہوتی ہے۔
آج جہاں نہ دیکھو عورتوں کی بھیڑ نظر آتی ہے، آج ہماری ماں اور بہنیں میلوں اور ٹھیلوں کی زینت بنی ہوئی ہیں،
مرد حضرات شادی بیاہ، بازار، دوکان، اسکول، کالج، ٹیوشن وغیرہ اکیلے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں، یہ بھی نہیں دیکھتے کہ لڑکی باپردہ گئی ہے یا بے پردہ، یاد رکھیں، گھر کی خواتین کو بے پردہ گھمانے والے شخص کو حدیث شریف میں “دیوث” کہا گیا ہے، اور دیوث جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔
برائے کرم ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس بات پر خصوصی توجہ دیں، مسلم گھرانوں کے اندرونی حالات پر بھی نگاہ رکھی جائے، مرد وزن کے اختلاط سے بچا جائے، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکے لڑکیوں کے سکشن الگ الگ کیے جائیں، انڈرائڈ موبائل سے لڑکیوں کو بچایا جائے اور ان کی حرکات و سکنات، باہر آنے جانے پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ پہلے مرحلہ میں ہی اس کا سد باب ہو سکے، صوم و صلوٰۃ، تلاوت قرآن پر پابندی کاروائی جائے، دینی تعلیم و تربیت پر زور دیا جائے، حدیث و تفسیر کی چھوٹی چھوٹی کتابیں ضرور پڑھائی جائیں، جس وہ صحیح سے اپنے دین کو سمجھ سکیں، اس مہم میں سب سے پہلے اُن بچیوں کے والدین اور بھائیوں کو آگے آنا ہوگا۔ لہٰذا اس پر سختی سے عمل کرایا جائے۔
خواتین سے میری یہ گزارش ہے کہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی کنیز بن کے رہو، اپنے وجود کو جہنم کا حصہ نہ بناؤ، بلا اشد ضرورت گھر سے ہرگز نہ نکلو، نکلو تو گھر کے کسی فرد کے ساتھ ہی جاؤ، بھیڑیوں کا گروہ تمہاری تاک میں ہے،
ربِّ کریم ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ