آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
بات اب اس بات تک پہنچ چکی ہے کہ آئین تک بدلنے کی بات کی جانے لگی ہے۔ اور یہ بات کوئی اور نہیں بلکہ خود وزیر اعظم کے اپنے صلاح کار کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے بیبیک دیبرائے نے اس کے متعلق ایک لمبا چوڑا مضمون بِناکسی پس و پیش کے لکھ ڈالا اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر حیرانی اس بات کی ہے کہ پی ایم پینل نے یہ کہتے ہوئے اپنا پلو جھاڑ لیا کہ یہ ہمارا پیش کردہ نظریہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم کے خاص صلاح کار کی رائے سے وزیر اعظم کا کوئی تعلق نہیں؟ اور اگر ہے تو وزیر اعظم یا بھاجپا سرکار نے بیبیک دیبرائے کے خلاف ان کے نہ صرف حیران کن بلکہ اس ناقابل معافی اقدام کے خلاف کیا ایکشن لیا؟ اگر تا حال نہیں لیا تو کیا آئندہ ایکشن لے گی یا پھر ایک شہری کی ذاتی رائے بتاکر، اظہارِ خیال کی آزادی کی آڑ لیتے ہوئے اتنی گمبھیر بات کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا جائے گا؟
خیر وزیر اعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کی اگوائی میں چل رہی بھاجپا سرکار سے ہم کیا ہی امید کریں، جبکہ ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم کے تئیں ان کے ناپاک و خطرناک ارادے ایک مدت سے آشکارہ ہیں۔ مودی جی نے عدم ضرورت کے باوجود جس ہٹ دھرمی اور انانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کورونابحران کے دوران ایک بڑی لاگت سے نیا پارلیمان بنوایا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کا آئین بھی انہیں پرانا، غیر ضروری اور سستا لگنے لگا ہو اور اپنے صلاح کار کی رائے سے مکمل طور پر اتفاق کرتے ہوں بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں کی تائید و تاکید سے مسٹر بیبیک دیبرائے نے اس آئیڈیالوجی کا علی الاعلان انکشاف کیا ہو، ورنہ ظاہر ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جسے جمہوریت کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے کوئی اتنی بڑی بات اتنی آسانی اور اعتماد کے ساتھ کیسے کہہ سکتا ہے۔
ذرا پیچھے جائیں تو بھاجپا سرکار یا زعفرانی پارٹی کو ایک مدت سے ملک کی نت نئی چیزوں کو بدلنے کا شوق رہا ہے۔ متعدد جگہوں کے ناموں سے لے کر سڑکوں تک اور تاریخی عمارتوں سے لے کر عبادت گاہوں تک، ہر جگہ اس کی ناپاک اور فتنہ پرور ذہنیت کھل سامنے آئی ہے۔ گیان واپی اور متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد کا حالیہ ہائی وولٹیج ڈراما ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ بابری مسجد کا معاملہ رفع دفع ہوا اور اس کے بعد عبادت گاہوں کے تحفظ کو لے کر قوانین بنے تو محسوس ہوا کہ ملک میں مندر مسجد کا جھگڑا اپنے اختتام کو پہنچا مگر جن کی فطرت میں عناد ہو اور عادت میں فساد وہ کہاں باز آنے والے تھے، فورا ’ایودھیا تو بس جھاکی ہے۔۔۔کاشی متھرا باقی ہے‘ کا نعرہ لے کر بیٹھ گئے۔ باقی اگر واقعی کاشی متھرا ہو اور عدالتی فرمان کے تحت قضیہ حل ہو جائے تو غنیمت ہے مگر ان کی فہرست میں ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی چار ہزار مساجد باقی ہیں۔ الامان! یہ لاحاصل سینہ زوری اور فتنہ پروری کی حد نہیں تو اور کیا ہے۔
ایک عرصے سے ملک میں صحیح سالم مکانات کو ملبے میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی بھگوا بریگیڈ کی تبدیلی والی ذہنیت کا ہی حصہ ہے جس کے ذریعے وہ اقلیت خاص کر مسلمانوں کو نہ صرف پریشان کرنا چاہتا ہے بلکہ ان کے عزم و حو صلے کو بھی کچل دینا چاہتا ہے۔ ہریانہ کے نوح کے تازہ حادثات کے بعد حکومت نے جس طریقے سے مسلمانوں کے گھروں کے ساتھ ان کی دکانوں کو بھی بڑی تعداد میں بلڈوز کیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ اب وہ ملک کے مسلمان طبقے کو معاشی طور پر بھی کمزور کر دینا چاہتی ہے۔ اب تک ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کے کھوکھلے نعرے لگائے یا بے جا حلف اٹھائے جاتے تھے جنہیں جلد ہی عوام کی جانب سے مسترد کر دیا جاتا تھا مگر اس بار فسادات کے فورا بعد غیر قانونی تعمیرات کے بہانے مکانوں کو چھوڑ دکانوں پر سرکاری چڑھائی نے جہاں واقعی غریب اور مزدور مسلمانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہیں گنتی کی چند شدت پسند ہندوتوا تنظیموں کے ساتھ حکومت کی ذہنی ہم آہنگی بھی طشت از بام چکی ہے۔
ملک بھر میں تبدیلی پر بضد بی جے پی سرکار کے مکھیا مسٹر نریندر مودی نے اسی تبدیلی کی گہما گہمی میں اس دفعہ آزادی کی 77 ویں برسی کے موقع پر دہلی کے عظیم الشان اور نایاب تاریخی لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے لوگوں کے لیے اپنا اندازِ تخاطب بھی تبدیل کر لیا اور ’دیس واسیو‘ کی جگہ ’پریوار جنو‘ کا استعمال کیا۔ حیرت ہے کہ عمر بھر اپوزیشن کو ’پریوار واد‘ کا طعنہ دیتے نہ تھکنے والے مودی جی نے آج پورے دیش کو ہی اپنا پریوار مان لیا ہے۔ ظاہر ہے پریوار سے محروم شخص بنا پریوار کے کب تک رہ سکتا ہے۔ یا پھر دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں مضبوط و متحد اپوزیشن کے سامنے اپنی ہار محسوس کرتے ہوئے ووٹ کی لالچ میں ملک کے ایک سو چالیس کروڑ عوام سے کچھ زیادہ ہی اپنائیت جتائی ہو اور ’میرے پریوارجنو!‘ کی صورت میں محبت و یگانگت سے نہایت بھرا ہوا جملہ دیا ہو۔ آخر جملوں کی تخلیق اور ان کی بر وقت ڈیلیوری کے معاملے میں کون ان کی برابری کر سکتا ہے۔
معزز قارئین! وطن عزیز میں گزشتہ تقریبا دس سالوں میں جو بھی تبدیلیاں رو نما ہوئیں ہیں ان میں بیبیک دیبرائے کی طرف سے اٹھایا گیا حالیہ مدعا نہایت حساس اور گھاتک ہے۔ اس کی سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے ہمیں اس کے خلاف بڑے پیمانے پر آواز اٹھانی چاہیے اور احتجاج درج کرانا چاہیے۔ جس ناپاک ذہن سے یہ رائے نکلی ہے اس پر کارروائی کی مانگ کرنی چاہیے اور آئندہ ایسا نہ ہو، حکومت کی جانب سے اس کی یقین دہانی کروانی چاہیے۔ ہندو راشٹر کی گونج ایک عرصے سے ہمارے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کی مانیں تو یہ ہندو راشٹر کے قیام کی طرف حکومت ہی کی جانب سے اٹھایا گیا ابتدائی قدم ہے۔ مودی سرکار اس کے ذریعے لوگوں کی رائے جاننا چاہ رہی ہے اور پس پردہ ان کی مخالفت کی شدت کو ناپنا چاہتی ہے تاکہ اس کے مطابق آگے کا لائحہئ عمل تیار کیا جا سکے۔
آر ایس ایس کی نگرانی میں چلنے والی بی جے پی حکومت اپنے روحانی پیشوا مسٹر موہن بھاگوت کے ہندو راشٹر کے خواب کو مکمل کرنے کی سمت میں بڑی تیزی سے گامزن ہے۔ آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق2025 کے آتے آتے بھارت کے ہندو راشٹر ہونے کا راستہ صاف ہو جانا چاہیے، اس کے راستے میں آنے والی ساری اڑچنیں دور ہو جانی چاہئیں اور تمام گھاٹیاں عبور کر لی جانی چاہئیں تاکہ 2025 میں جب آر ایس ایس کے قیام کے سو سال پورے ہوں تو وہ اس کا باضابطہ اعلان کر سکے اور جشن منا سکے۔ ہندوستان کا حالیہ دستوری ڈھانچہ دیکھتے ہوئے اگرچہ اس کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے مگر محتاط رہنا ضروری ہے اور حکومت کے ہر چھوٹے بڑے اقدام پہ نظر رکھنا ہماری مجبوری ہے۔ بلا شبہ اس میں ذرا سی غفلت بھی خود اپنے پیروں پہ کلہاڑی مارنے کے مصداق ہوگی۔
وزیر اعظم کے الفاظ پہ غور کریں توایک لحظے کے لیے اِس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے آقا مسٹر بھاگوت کے اشارے پر لفظ ’پریوار جن‘ کا استعمال کر کے بھارت کے تمام پریوار کو کہیں ’سنگھ پریوار‘ کا حصہ تو نہیں بتا دیا۔ خیر! آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔